0
Saturday 4 Oct 2014 10:35

نااہل حکمراں اور ریکوڈک منصوبہ

نااہل حکمراں اور ریکوڈک منصوبہ
رپورٹ: این ایچ جعفری

اسلام آباد میں واقع عدالت عظمٰی نے گذشتہ سال ریکوڈک معاہدے کو کالعدم اور غیرقانونی قرار دیدیا تھا۔ جو بیس سال پہلے بلوچستان حکومت اور بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کے درمیان کیا گیا تھا۔ عدالت عظمٰی نے اپنے فیصلے میں بتایا تھا کہ 23 جولائی 1993ء کو کیا جانے والا یہ معاہدہ ملک کے قوانین سے متصادم ہے۔ 2011ء میں ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جو اینٹوفگستا آف چلی اینڈ کینیڈا بیرک گولڈ کارپوریشن کے مابین مشترکہ کاروبار کی کمپنی ہے، انہوں نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ٹربیونل سے رابطہ کیا اور بلوچستان حکومت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا کیونکہ بلوچستان کی حکومت نے پروجیکٹ کی جگہ سے تانبا اور سونا نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ٹی سی سی نے الزام لگایا تھا کہ صوبائی حکومت نے 1993ء کے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جائنٹ وینچر ایگریمنٹ (سی ایچ ای جے وی اے) کی خلاف ورزی کی ہے. عدالت کے فیصلے کی وجہ سے بین الاقوامی ٹریبونل میں ٹی سی سی مقدمہ کمزور ہوگیا ہے کیونکہ سی ایچ ای جے وی اے کو کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ ٹی سی سی کو اب یہ حق حاصل نہیں ہے کہ 1993ء کے معاہدے کے تحت بین الاقوامی عدالت میں دعویٰ دائر کرسکے۔

بلوچستان کی حکومت نے پہلے اس علاقے میں بین الاقوامی مائننگ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ 1993ء میں دستخط کئے تھے۔ جس میں یہ طے پایا تھا کہ ایک مشترکہ پروجیکٹ شروع کیا جائیگا، جس میں بلوچستان کا حصہ 25 فیصد اور بی ایچ پی کا حصہ 75 فیصد ہوگا۔ اس سلسلے میں جون 2000ء میں ایک تحریری دستاویز کے ذریعہ حقوق سے دست کشی کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ دی آسٹریلین مینکور ریسورسز نے 2000ء میں بی ایچ پی کے حصص خرید لئے تھے۔ ٹی سی سی مینکور ریسورسز کی ایک ذیلی کمپنی ہے اور اسکا بی ایچ پی بلیٹن کے ساتھ ایک معاہدہ ہے۔ اپریل 2006ء میں اس نے ایک تجدیدی معاہدہ کے ذریعہ سی ایچ ای جے وی اے کے تحت بی ایچ پی کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں حاصل کرلی تھیں۔ چنانچہ اب ریکوڈک ایک مشترکہ منصوبہ ہے۔ جس میں اینٹوفگسٹا کا حصہ 5 .37 فیصد، بیرک گولڈ کا حصہ 5 .37 فیصد اور بلوچستان کا حصہ 25 فیصد ہے۔ ان دونوں غیرملکی کمپنیوں نے آسٹریلین ٹی سی سی سے حصص خرید لئے ہیں۔ جن کے پاس ریکوڈک کے علاقے میں مائننگ کا لائسنس ہے اور اس کے مطابق وہ 75 فیصد حصے کے مالک ہیں۔ ریکوڈک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں۔ جو پوری دنیا کے ذخائر کے پانچویں حصے کے برابر ہیں۔

سب سے پہلے معاہدہ بی ایچ پی سے کیا گیا تھا لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بی ایچ پی نے اپنے حصص ٹی سی سی کے ہاتھ فروخت کردیئے اور پھر ٹی سی سی نے انہیں بیرک گولڈ اور اینٹو فگسٹا کو فروخت کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جب ریکوڈک پروجیکٹ بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنی بی ایچ پی بلیٹن نے ٹی سی سی کو منتقل کیا تو پاکستانی حکمرانوں نے اسے مسترد کیوں نہیں کیا۔؟ اس کی وجہ 2000ء میں اس وقت کی حکومت کی نااہلی اور ناقص کارکردگی ہے۔ جس نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نیا معاہدہ کرنے کی کوشش نہیں کی، گو کہ بی ایچ پی اس پروجیکٹ کو شروع کرنے میں ناکام ہوگئی تھی۔ اس معاملے کو نمٹانے میں بلوچستان حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب یہ قضیہ بین الاقوامی ٹریبونل میں طول پکڑ گیا ہے اور اس میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے سونے کی کانکنی کو فروغ دینے میں مزید تاخیر ہوگئی ہے۔ ٹی سی سی نے 2006 تک کھدائی اور فنی معلومات کے ضمن میں 400 ملین ڈالر صرف کئے اور رپورٹ کے مطابق اسی سال بیرک نے 130 ملین ڈالر کے حصص خریدے تھے۔ ٹی سی سی نے جو 3.3 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار تھی، بلوچستان حکومت کو اس بات کی پیشکش کی کہ وہ کمپنی میں 25 فیصد ایکویٹی حصص خرید لے اور یہ کہ حکومت کو مزید آمدنی پر رایلٹی دی جائیگی۔

2011ء میں بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کی مائننگ لیز دینے کی درخوا ست مسترد کردی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ درخواست نامکمل ہے اور کمپنی نے معاہدے کی قانون شکنی کی ہے۔ کمپنی نے بلوچستان حکومت سے مذاکرات کرنے کی کوششیں کیں اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو اس نے بین الاقوامی ٹریبونل سے رجوع کیا تاکہ اس سرمایہ کاری کا معاوضہ حاصل کیا جائے جو اس پروجیکٹ پر اس نے کیا تھا۔ بلوچستان کی حکومت کو ریکوڈک کے قضیے کو نمٹانے میں اپنی نااہلی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑیگی۔ یہ صوبہ جو مالیاتی خسارے کا شکار ہے، اس غیر معمولی معاشی ترقی سے محروم ہو گیا ہے۔ جو چاغی کے ضلع میں عالمی سطح کی تانبے اور سونے کی کانوں کی وجه سے اسے حاصل ہوتی۔ صوبہ کئی بلین کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے بھی محروم ہوگیا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت جبکہ بغاوت اور سرکشی کے شکار اس صوبہ میں غیر ملکی سرمایہ کار اپنی دلچسپی کھو بیٹھے ہیں۔ یہ صوبہ تو اس قابل بھی نہیں تھا کہ بین الاقوامی ٹریبونل میں غیر ملکی مائننگ کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے مصارف بھی برداشت کر سکے۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کو 450 ملین روپے کی رقم دینے سے بھی انکار کر دیا، یہ رقم قانونی ماہرین کی فیس کی مد میں درکار تھی تاکہ وہ ٹی سی سی کی جانب سے بین الاقوامی ٹریبونل میں دائر کردہ مقدمہ کی پیروی کر سکیں۔

حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہ پروجیکٹ متنازعہ بن گیا ہے اور جب تک ٹریبونل میں مقدمہ کی کارروائی مکمل نہ ہو، کوئی تیسری پارٹی بھی اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتی۔ بلوچستان حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ ٹی سی سی کے ساتھ معاملات کو طے کرنے کیلئے مذاکرات کرتی تاکہ پروجیکٹ کے بارے میں صوبہ کے حقیقی تحفظات پر غور کیا جاتا لیکن حکومت نے تو کمپنی کے ساتھ مذاکرات کرنے کے تمام دروازے بند کردیئے۔ حتٰی کہ اس کے افسروں سے ملنے سے بھی انکار کردیا۔ ایک غیر ملکی مائننگ کمپنی اور صوبائی حکومت کے درمیان تعطل کی وجہ سے ان غیر ملکی کمپنیوں کو منفی تاثر ملیگا، جو ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہیں۔ کیا بلوچستان کی موجودہ حکومت اپنے طور پر اس پروجیکٹ کو شروع کر سکتی ہے۔؟ کیا وہ ان مالیاتی مصارف کو برداشت کر سکتی ہے، جو کانکنی کو ترقی دینے کیلئے درکار ہیں۔؟ ریکوڈک پروجیکٹ کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کئے بغیر مقامی وسائل سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے چار سو مربع کلومیٹر اس علاقے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ جس میں سے کچھ علاقہ تو غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پر دیا جائیگا اور باقی بڑے حصے کو ترقی دینے کیلئے ملکی وسائل استعمال کئے جائیں۔ غیر ملکی فرموں کو زمین لیز پر دینے سے جو سرمایہ حاصل ہوگا۔ اسکی مدد سے مالیاتی اور دیگر روزمرّہ کے مصارف برداشت کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح ریکوڈک پروجیکٹ کو ملکی وسائل سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق ریکوڈک پراجیکٹ کے اثاثوں کی مالیت پچیس بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ میٹریل کی حقیقی قیمت جو کہ نکالا جائے گا، تقریباً 125 بلین امریکی ڈالر ہے لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ آزادی کے 63 سال بعد بھی اب بھی ہم قیمتی معدنی دولت کے سروے اور نکالنے، مائننگ و ریفائننگ کے لئے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 413094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش