0
Thursday 23 Oct 2014 09:41

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے اشتعال انگیز اور فرقہ پرستانہ خیالات کی تشہیر اور تبلیغ کی جارہی ہے، مولانا اعجاز عرفی قاسمی

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے اشتعال انگیز اور فرقہ پرستانہ خیالات کی تشہیر اور تبلیغ کی جارہی ہے، مولانا اعجاز عرفی قاسمی
اسلام ٹائمز۔ واضح اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل کرنے کے بعد بھارت کے طول و عرض میں جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے اشتعال انگیز اور فرقہ پرستانہ خیالات کی تشہیر اور تبلیغ کی جارہی ہے، اس سے اس ملک کی کثیر قومی مشترکہ گنگا جمنی تہذیب کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جہاد کے منفی پروپیگنڈے کے سہارے اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کو اپنے آتشیں بیانات کے ذریعے ایک مخصوص پارٹی کے وابستگان ہائی کمان کے اشارے پر پامال اور مجروح کر رہے ہیں، اس کی وجہ سے ملک کے اس طبقے میں اضطراب اور بے چینی کا ماحول پایا جارہا ہے۔ اس رویہ پر موجودہ بر سر اقتدار حکومت کو جلد قابو پانے کی سمت میں پیش رفت کرنا چاہیے، ان خیالات کا اظہار معروف عالم دین اور آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کیا، انہوں نے پچھلے عام انتخابات کے حیران کن نتائج اور کمزور حزب مخالف کے تعلق سے کہا کہ اگر بی جے پی ملک کے جمہوری نظام میں بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے، تو اس کو عوام کے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے یہاں کی کثرت میں وحدت سے عبارت تہدیبی روایات کی پاس داری کرنا چاہیے۔ اور ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کے فارمولے پر عمل کرکے دکھانا چاہیے، مولانا اعجاز عرفی نے کہا کہ بی جے پی لہر کے پیچھے کوئی عوامی طاقت نہیں، بلکہ کانگریس کی کمزور قائدانہ صلاحیت اور گاؤں گاؤں زمینی سطح پر محنت نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

دیگر سیکولر علاقائی پارٹیوں کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے ہی بھارت میں سیکولر طاقتوں کے بجائے نفرت کی سیاست کرنے والی پارٹیاں کم ووٹ ملنے کے باوجود اقتدار کی کرسی پر متمکن ہوجاتی ہیں، انھوں نے ہریانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی تاریخی جیت کو بھی سیکولر پارٹیوں کے انتشار اور متحدہ قیادت کے فقدان کا نتیجہ بتایا۔ انھوں نے موجودہ مرکزی حکومت کے ذریعے مخصوص اقلیتی طبقے کو روزگار اور ترقی کے مواقع سے محروم رکھنے کی درون خانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بر سر اقتدار پارٹی گرچہ وہ مخصوص آئیڈیالوجی کی ہی پابند کیوں نہ ہو، ملک کے ہر مذہب اور ہر طبقے کی نمائندہ ہوتی ہے اور اس کو ہر طبقے کی ترقی اور خوش حالی کے لیے پالیسی وضع کرنا چاہیے، اگر کوئی پارٹی جمہوری طرز حکومت میں کسی طبقے کو نظر انداز کرتی ہے تو یہ اس ملک کے آئینی تقاضوں کے منافی ہے۔ مولانا قاسمی نے ملک کے موجودہ نازک حالات سے سبق لیتے ہوئے ملک کے مسلمانوں سے یہ اپیل کی ہے کہ اگر ان کے ساتھ تعصب اور نا انصافی کا رویہ برتا جارہا ہے تو اس سے انھیں دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک کا مسلمان تقسیم ہند اور ایمرجنسی کے بدترین اور ناقابل بیان دور سے گزر چکا ہے، انھیں ان حالات سے کسی خوف و ہراس میں مبتلا ہونے کے بجائے، اس ملک کے سیکولر آئین پر یقین رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے تعلق سے جامع اور پختہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ موجودہ صبر آزما حالات سے نمٹنے کی یہی سب سے بہتر اور فائدہ مند تدبیر ہوسکتی ہے۔ انھوں نے ان سخت حالات میں مسلم تنظیموں اور مسلم قائدین سے بھی یہ اپیل کی کہ وہ خوف میں میدان عمل نہ چھوڑ دیں، بلکہ زمینی سطح پر ملک کے ارباب حل و عقد کے ساتھ روابط استوار کرکے مسلم عوام کے سامنے ایک لائحہ عمل رکھیں جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے روڈ میپ کا کام دے سکے۔
خبر کا کوڈ : 415790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش