0
Sunday 26 Oct 2014 15:44

عزاداری کیلئے اجازت نامہ کی بات کرنیوالے فکر اقبال سے انحراف کرتے ہیں، علامہ ناصر عباس

عزاداری کیلئے اجازت نامہ کی بات کرنیوالے فکر اقبال سے انحراف کرتے ہیں، علامہ ناصر عباس
اسلام ٹائمز۔ ہلال محرم 1436ء ایک بار پھر نواسہء رسول حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر طلوع ہو رہا ہے، دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ، جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ ۖ  کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10 محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔ میدان کربلا میں نواسہ رسول (ص) اور ان کے باوفا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لئے اسو ہ حسنہ ہیں، کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت سے ہم کو درس حریت و آذادی ملتا ہے، یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے، کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدا ر رکھا جائے، ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں پیدا کرتے رہیں گے۔ کربلا ایک لگاتار پکار ہے، یزیدیت ایک فکر اور سوچ کا نام ہے، اسی طرح حسینیت بھی ایک کردار کا نام ہے، اگر کوئی حکمران اسلام کا نام لیوا اور کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کے کام یزید جیسے ہیں تو وہ دور حاضر کا یزید ہی ہے۔

اپنے پیغام میں علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا، جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول (ص) جسے امت کے سامنے محمد مصطفیٰ ۖ  نے تربیت کیا تھا، سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، آپ کی قربانی آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی بقا کی اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔ یہ تاریخی و بےمثال قربانی اور نمونہء ایثار و شجاعت سے ہمارے لئے درس کا باعث ہے، اس شہادت میں بہت سے درس اور راز و سر موجود ہیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں اور یزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں، کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں، بالخصوص امت مسلمہ کی وحدت و بھائی چارہ پر فرقہ واریت کے منحوس سائے نہ پڑنے دیں۔ یہ قربانی کس قدر بےمثال ہے کہ جس سے چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ایسے ہی درس و سبق حاصل کئے جاتے ہیں جیسے ابھی کل ہی ہونے والے کسی واقعہ سے انسان کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرتا ہے۔

علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے تو اس واقعہ میں حضرت اباعبداللہ الحسین کی داستان شہادت میں پنہاں اسرار و رموز کو سامنے لانے کی تڑپ کا اظہار کیا ہے اور برملا کہا ہے کہ
بیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہء شبیر ہو جائے
یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ علامہ اقبال تو حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب کی قربانیوں کی داستان اور اسرار کو اس قدر اہم جانتے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہے کہ اگر یہ راز کھل جائیں اور امت اس سے آگاہ ہو جائے تو اپنا کعبہ و قبلہ ہی تبدیل کر لیں، مگر اس ملک میں بسنے والے بہت سے تعفن و تعصب زدہ لوگ محرم الحرام میں شہادت و شجاعت کی اس داستان کے بیان کی محافل کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنی پست ذہنیت پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، افسوس ان حکومتوں پر ہوتا ہے جو امام حسین کی اس تاریخی و بے مثال قربانی بیان کرنے کیلئے لائسنس اور پابندیوں کا شکار کرتی ہے۔ بلااجازت جلوس و مجلس برپا کرنے کو جرم قرار دیتی ہے اور اس محرم کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈالتی ہے۔ یہ مفکر پاکستان اور مصور پاکستان کی فکر سے مکمل انحراف ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کا دل دکھانے کا باعث بھی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج بانی پاکستان اور مصور پاکستان حیات ہوتے تو پاکستان میں نواسہ رسول ۖ  کی قربانی کے ذکر کی محافل ایسی ہی پابندیوں کی زد پہ ہوتیں؟، ہرگز نہیں، بلکہ بانی پاکستان اور مصور پاکستان ان مجالس و محافل کا حصہ ہوتے۔ سربراہ مجلس وحدت مسلمین نے کہا کہ علامہ اقبال تو وہ سر اور راز کھول کھول کر بیان کرتے جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے قبلہ کو تبدیل کرسکتے تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمران ان محافل و مجالس کو نشانہ بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں کھل کھیلنے کا پورا موقعہ مہیا کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 416568
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش