0
Monday 3 Nov 2014 12:54

عاشورہ محرم الحرام 1436ھ کے موقع پر علامہ ساجد علی نقوی کا خصوصی پیغام

عاشورہ محرم الحرام 1436ھ کے موقع پر علامہ ساجد علی نقوی کا خصوصی پیغام
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے یوم عاشور کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ 61ھ کے بعد روز عاشور امام حسین ؑ کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہوگیا، اس سے قبل عاشورہ کا لغوی اور لفظی مفہوم علمی حد تک تو عیاں تھا لیکن عاشورہ کی عملی شکل امام عالی مقام کے کردار سے سامنے آئی اور اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔ عاشورا برپا کرنے کے لئے جن اسباب و علل اور حالات و واقعات کی ضرورت ہوتی ہے اس کی تشخیص امام عالی مقام سے بڑھ کر کون کرسکتا ہے؟ سیدالشہدا ؑ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بزور مسلط کی جانیوالی حکمرانی کو ماننے سے انکار کر دیا، اسلامی اصولوں اور بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی نفی پر مبنی جابرانہ نظام کو تسلیم نہ کیا، غیر اسلامی تہذیب و ثقافت کو ٹھکرا دیا اور اصلاح امت، معروف (نیکی) کو پھیلانے اور منکر (برائی) کو مٹانے کے لئے مدینہ سے ہجرت اختیار کی۔
 
علامہ ساجد نقوی نے کہا ہے کہ جس طرح حضرت امام حسین ؑ نے عاشورہ برپا کیا تھا، اسی طرح پیروکاران حسین ؑ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھے کردار، احکام خداوندی اور شریعت محمدؐی پر عمل پیرا ہونے کے لئے امام حسینؑ کی جدوجہد کو سامنے رکھیں اور ظلم، ناانصافی، تجاوز اور بے عدلی کے خلاف قیام کرتے ہوئے عاشورہ برپا کریں۔ اس جدوجہد میں سب سے بڑا ہتھیار اتحاد بین المسلمین اور وحدت امت ہے، اگر ہم اتحاد و وحدت کا ہاتھ تھامتے ہوئے اپنے خارجی اور داخلی دشمنوں کے خلاف برسرپیکار ہوجائیں تو کامیابی یقیناً ہمارا مقدر ہوگی۔ چاہے ہمیں کسی کربلا کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اور اس راہ میں شہادت جیسی سعادت حاصل کرنے کے مرحلے سے کیوں نہ گزرنا پڑے۔ علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ شب عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لوگوں کو اپنی بیعت سے آزاد کرنا، شعور و نظریہ اور آزادی و استقلال کے ساتھ شہادت کے سفر پر گامزن ہونے کا درس دیتا ہے۔ آپؑ نے جبر کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ نہ رکھ کر رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی چھوڑی کہ کشتیاں جلا کر لوگوں کو جبری شہادت کی طرف مجبور کرنا اور ہے جبکہ چراغ بجھا کر لوگوں کو ابدی نجات عطا کرنا اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعوؤں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔
 
علامہ ساجد نقوی نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ آج کی صورتحال 61 ھ کی صورتحال کے مشابہ ہے، لیکن انداز و ماحول نیا ہے۔ آج بھی حسین ؑ ابن علی ؑ کربلا سے صدائیں بلند کر رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارا ساتھ دے۔ آیئے ہم حسین ؑ ابن علی ؑ کا ساتھ دیں اور ان کی صدا پر لبیک کہیں۔ احکام خداوندی اور شریعت نبوی پر عمل پیرا ہو کر اپنے اچھے اور مضبوط کردار کے ذریعے۔۔۔کردار سیدہ زینب ؑ اور سیرت حضرت زین العابدین ؑ پر عمل کے ذریعے۔۔۔ مشن حسین ؑ اور اسلام کے عادلانہ نظام کے لئے عملی جدوجہد کے ذریعے۔۔۔ دشمن کے عزائم اور مظالم سے اتحاد و اخوت اور وحدت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے ذریعے۔۔۔ اور اس راستے میں اگر مشکلات پیش آئیں، حتی کہ شہادت کی سعادت بھی نصیب ہو تو اس کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھا جائے بلکہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لئے آمادہ رہا جائے، کیونکہ آج بھی دنیا کے مختلف کونوں سے یزیدیت مختلف صورتوں میں سر اٹھا رہی ہے، ہمیں حسینیؑ بن کر ان یزیدی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی ہر دور کا پیغام عاشور ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ؑ
خبر کا کوڈ : 417733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش