0
Saturday 15 Nov 2014 22:55

نیشنل پریس کلب میں جرنلسٹس سیفٹی و سکیورٹی ورکشاپ کا انعقاد

نیشنل پریس کلب میں جرنلسٹس سیفٹی و سکیورٹی ورکشاپ کا انعقاد
اسلام ٹائمز۔ راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس اور نیشنل پریس کلب کے زیراہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ’’سیفٹی و سکیورٹی ورکشاپ ‘‘منعقد کی گئی۔ ورکشاپ دن گیارہ بجے شروع ہوئی، جوکہ سہ پہر تین بجے تک جاری رہی۔ ورکشاپ میں صحافیوں کے قانونی، جانی، مالی تحفظ کے موضوع پر لیکچر دیئے گئے۔ ورکشاپ میں پی ٹی آئی کی ڈاکٹر شیریں مزاری، فاٹا کے پارلیمانی لیڈر غازی گلاب جمال، معروف اینکر پرسن مظہر عباس اور ڈی آئی جی اسلام آباد سلطان اعظم تیموری نے شرکت کی۔ ورکشاپ میں ممبران کی جانب سے متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ورکرز کی تربیت کریں کہ وہ میڈیا ورکرز اور میڈیا ہاوسز پر حملے نہ کریں، جبکہ حکومت فاٹا اصلاحات میں وہاں کے صحافیوں کے تحفظ کیلئے بھی ضروری قانون سازی پی ایف یو جے کی مشاروت سے کی جائے۔ ورکشاپ میں لیکچر دیتے ہوئے تحریک انصاف کی ایم این اے ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ جیو نیوز کے ورکرز کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے مالک کے ساتھ ہمارے اختلافات ہیں اور اختلاف کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم سٹیج پر کھڑے ہو کر اپنے ورکرز کو مسلسل یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی میڈیا ورکر یا ہاوس پر حملہ نہ کریں اور ہم جیو نیوز سمیت سارے میڈیا کو یہ آفر کرتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے جلسوں میں کسی قسم کا خطرہ محسوس کریں تو ہمیں ایونٹ سے قبل آگاہ کریں ہم ان کیلئے الگ اور محفوظ جگہ کا بندو بست کریں گے۔ تاہم میں ساتھ ہی یہ بھی کہوں گی کہ میڈیا کو ذمہ دارانہ و  غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے اور سب کا موقف برابر پیش کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہاوسز کو چاہیئے کہ وہ پر خطر مقامات یا ایونٹس کی کوریج پر صرف ایسی ٹیم کو تعینات کریں، جسے سیفٹی و سیکورٹی کی مکمل تربیت فراہم کی گئی ہو اور میڈیا ورکرز کو ایسے مقامات پر جانے سے قبل سیفٹی کٹ ساتھ لیکر جائیں۔ بیپرز ہجوم میں کھڑے ہو کر دینے کی بجائے تھوڑ الگ ہو کر دیں، تمام میڈیا ہاوسز اپنے ورکر کی ہیلتھ و لائف انشورنس کرائیں اور جب بھی ہم پارلیمنٹ میں جائیں گے، میڈیا ورکرز کی سیفٹی و سکیورٹی کیلئے میں خود بل پیش کروں گی۔

فاٹا کے پارلیمانی لیڈر غازی گلاب جمال نے کہا کہ اس خطے میں نامعلوم افراد کی جنگ چل رہی ہے اور ایسی صورت میں سب کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، پاکستان میں لیاقت علی خان اور محترمہ بینظیر بھٹو سمیت کئی اہم شخصیات قتل ہو چکی ہیں اور ان کے قاتلوں کو بھی سزائیں نہیں دی جا سکیں، دوسری جانب ہماری سوسائٹی میں کرپشن بے حد بڑھ چکی ہے اور ایسی صورتحال میں ایسے عناصر کے خلاف رپورٹنگ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ پاکستان کے صحافی اس ساری صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔ حکومت کو چاہے کہ وہ میڈیا ورکرز کی سکیورٹی کیلئے مناسب حکمت عملی اختیار کریں۔ معروف اینکر پرسن و تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہاکہ تمام عالمی نشریاتی ادارے اپنے رپورٹرز کو اس وقت تک پر خطر علاقوں میں کوریج کیلئے نہیں بھجواتے ہیں، جب تک انہیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی مناسب تربیت نہ دے دیں، لیکن ہمارے ہاں اس اصول کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے، جس کے باعث میڈیا ورکرز کا جانی نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔ میڈیا ورکرز مظاہروں و دھرنوں کی کوریج کیلئے جوگرز پہن کر جائیں اور لیڈی رپورٹرز اس دوران بڑے ہینڈ بیگز ساتھ لیکر نہ جائیں۔ اب جو آنسو گیس استعمال ہوتی ہے، اس سے متاثرہ شخص کی آنکھوں میں پانی نہ ڈالیں کیونکہ پانی ڈالنے سے آنکھیں سوجھ جاتی ہیں البتہ نمک اور خشک تولیہ ساتھ رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک تمام میڈیا ورکرز اور ہاوسز ایک پر حملہ سب پر حملے تصور کرتے ہوئے سب اسکی خبر نشر یا شائع نہیں کرینگے تب تک موثر دباؤ نہیں ڈالا جا سکے گا۔

ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس سلطان اعظم تیموری نے کہا کہ پولیس میڈیا کے ساتھ پورا تعاون کرنے کی ہر ممکن کو شش کرتی ہے، لیکن اکثر و بیشتر میڈیا ہم سے تعاون نہیں کرتا ہے، مثلا دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ جہاں بھی کو ئی حادثہ ہو وہاں ٹیپ لگا کر غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کر دیا جاتا یہی کام ہم بھی کرتے ہیں تاکہ جائے وقوعہ سے زیادہ سے زیادہ شواہد اکھٹے کئے جا سکیں مگر میڈیا ورکرز اس پابندی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے آزادی صحافت کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسی جگہ جاتے ہیں جہاں جانا منع ہوتا ہے۔ جہاں بم دھماکہ ہو وہاں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد دوسرا دھماکہ نہ ہو جائے۔ اس لئے جب تک اس علاقے کو کلیئر نہ کر لیا جائے، تمام میڈیا ورکرز دور رہتے ہوئے کوریج کریں۔ انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد میں خدا نخواستہ کوئی بھی امن و امان کا مسئلہ درپیش ہوا تو اسلام آباد پولیس وہاں محفوظ مقام پر میڈیا کارنر بنائے گی، جہاں معلومات کی فراہمی کے ساتھ وڈیو فوٹیج بھی بنائی جا سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ مظاہروں کے دوران میڈیا ورکرز ہجوم اور پولیس کے درمیان آنے کی بجائے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا کریں، جہاں سے انہیں فریقین کی جانب سے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے کیونکہ ایسی صورتحال میں نارمل حالات نہیں ہوتے ہیں۔ مظاہروں کے دوران جس طرح سے پو لیس اپنی حفاظت کیلئے مناسب سامان استعمال کرتی ہے، اسی طرح کی تیاری اب مظاہرین بھی کر کے آتے ہیں تو میڈیا ورکرز کو بھی اپنے آپ کو محفوظ بنانے کیلئے کیٹس کا استعمال کرنا چاہے۔

نیشنل پریس کلب کے صدر شہریار خان نے کہا کہ کیمرے اور میڈیا ہاوسز کی بلڈنگز کی تو انشورنس ہوتی ہے مگر میڈیا ورکرز کی نہیں، اسلام آباد کے بیشتر میڈیا ہاوسز میں تو کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال میں نکلنے کیلئے ایمرجنسی راستے تک نہیں بنائے گئے ہیں، خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کوئی نکل بھی نہیں پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو میڈیا ورکرز دوران ڈیوٹی جاں بحق ہو جائیں ان کی تنخواہ بند کرنے کی بجائے اس کے اہل خانہ کو دی جائے، جیسا کہ چند میڈیا ہاوسز میں اس پر عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ آر آئی یو جے کے جنرل سیکرٹری بلال ڈار نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا ورکرز کے قاتلوں کو سزائیں نہ ملنے کی ایک وجہ کیس کی سماعت کے دوران قانونی مدد فراہم نہیں ہو تی ہے اور چونکہ بیشتر میڈیا ورکرز کی مالی حیثیت نہایت خراب ہے اور اگر ان کو قتل کر دیا جائے انکے ورثاء کیس لڑنے کیلئے اخراجات تو دور کی بات انکے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا ہے چنانچہ اس مقصد کیلئے فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا حکومت میڈیا ورکرز کے کیسز لڑنے کیلئے سپیشل پراسیکوٹرز کی تعیناتی کا وعدہ فی الفور پورا کرے۔ سابق ایم ڈی، اے پی پی ریاض احمد نے کہا کہ بدقسمتی سے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ایڈیٹر کا ادارہ ختم کر دیا گیا ہے اور یہ کام مالک نے خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ جو سٹوری نہیں جانی چاہے، وہ جاتی ہے اور اس کا جو ردعمل آتا ہے اس کا براہ راست نشانہ فیلڈ میں کام کرنے والے ورکرز بنتے ہیں۔ میڈیا ورکرز کو بھی غیر جانبداری سے کام کرنا چاہے اور خبر دیتے ہوئے خبر بننے والا کام نہیں کرنا چاہے۔ نیشنل پریس کلب کے سیفٹی سینٹر کے سربراہ سینئر صحافی اعجاز شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 114 میڈیا ورکرز قتل ہو چکے ہیں، مگر بدقسمتی سے آج تک کسی ایک کے بھی قاتلوں کو سزا نہیں دی جا سکی اور اس ضمن میں حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی نہایت افسوس ناک ہے۔ سیفٹی سینٹر کو ایک سال کے دوران کل 67 کیسز ملے، جن میں اکثریت میں شکایت کنندہ خواتیں تھیں اور ہم نے شبانہ روز کوششوں سے تقریبا تمام کیسز کو حل کیا۔ ورکشاپ میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی سلطان اعظم تیموری نے میڈیا سیفٹی سینٹر کے ہیڈ کو شیلڈ پیش کی اور آخر میں ورکشاپ کے شرکاء میں سرٹیفکٹس تقسیم کئے گئے۔

خبر کا کوڈ : 419697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش