0
Wednesday 26 Nov 2014 09:12
داعش مخالف اتحاد سراسر جھوٹ پر مبنی ہے

دنیا بھر کے مسلمان علماء دین تکفیریت کے خاتمے کیلئے علمی تحریک کا آغاز کریں، امام خامنہ ای

تکفیری گروہوں کی پیدائش کا مقصد مسلمانوں کو آپس میں الجھا کر اصلی دشمن اسرائیل سے توجہ ہٹانا ہے
دنیا بھر کے مسلمان علماء دین تکفیریت کے خاتمے کیلئے علمی تحریک کا آغاز کریں، امام خامنہ ای
اسلام ٹائمز۔ ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے 25 نومبر کو قم میں منعقدہ دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس کے منتظمین اور شرکاء سے ملاقات کی اور ان سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس عالمی کانفرنس کے منتظمین خاص طور پر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ جعفر سبحانی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی زحمات کو سراہتے ہوئے کہا: "اس خطرناک گروہ کا جائزہ لیتے وقت اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اصل مسئلہ تکفیری سوچ کی ترویج کا بھرپور مقابلہ کرنا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو صرف داعش نامی گروہ تک محدود نہیں بلکہ داعش اس شجرہ خبیثہ کی صرف ایک شاخ ہے۔"  
 
امام خامنہ ای نے گذشتہ چند سالوں کے دوران عالم اسلام میں تکفیری گروہ کی پیدائش کو عالمی استعمار کی سازش قرار دیا اور کہا کہ منحوس تکفیری عناصر کی پیدائش کا مقصد امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں کی سیاسی اہداف کی تکمیل خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور قدس شریف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ انہوں نے ایک ناقابل انکار حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "تکفیری گروہ اور ان کی حامی حکومتیں مکمل طور پر عالمی استعماری قوتوں یعنی امریکہ، یورپی ممالک اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا ظاہر اسلامی ہے جبکہ حقیقت میں وہ استعماری قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔"  
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اس دعوے کہ تکفیری گروہ اور ان کی حامی حکومتیں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں، کو ثابت کرنے کیلئے چند شواہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی دلیل تکفیری گروہوں کی جانب سے خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو اپنے اصل راستے سے منحرف کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: "اسلامی بیداری کی تحریک امریکہ، آمریت اور امریکہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے خلاف تحریک تھی لیکن تکفیری گروہوں نے اس عظیم استعمار مخالف تحریک کو خانہ جنگی اور مسلمانوں کے درمیان برادر کشی میں تبدیل کر دیا۔"  
 
امام خامنہ ای نے اسلامی بیداری کی تحریک کو اپنے اصلی راستے سے منحرف کرنے کو امریکہ، برطانیہ، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیز کیلئے تکفیری گروہوں کی عظیم خدمت قرار دیا اور کہا: "یہ ثابت کرنے کیلئے کہ تکفیری گروہ درحقیقت عالمی استعماری قوتوں کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں، ایک اور دلیل یہ ہے کہ اب تک تکفیری گروہوں اور ان کی حامی حکومتوں نے ایک بار بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔ وہ نہ صرف اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ الٹا خود اسلامی ممالک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔"  
 
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے اسلامی ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنے کو ان کا استعماری قوتوں کے آلہ کار ہونے کا ایک اور ثبوت قرار دیا اور کہا: "تکفیری گروہوں کی جانب سے انجام پانے والا ایک اور منحوس اقدام دین مبین اسلام کا رحمت، عقلمندی اور منطق پر استوار خوبصورت چہرہ خراب کرنے کی کوشش ہے۔ وہ اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کے گلے کاٹنے اور ایک مسلمان فوجی کی لاش سے دل نکال کر چبانے جیسے غیر انسانی اقدامات کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کرنے ہیں، تاکہ اس طرح دنیا والوں کو اسلام سے بدبین کریں۔"  
 
امام خامنہ ای نے اپنے دعوے کا ایک اور ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی حالیہ 51 روزہ جارحیت میں تکفیری گروہوں کی بے حسی اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد نہ کرنا بھی اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ استعماری قوتوں کی نوکری میں مشغول ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں عراق میں امریکہ کی جانب سے داعش کو ہوائی جہاز کے ذریعے اسلحہ اور ادویات فراہم کئے جانے کو اپنے دعوے کا ایک اور ثبوت قرار دیا اور کہا: "امریکی حکام داعش کے خلاف جنگ کا ڈھونگ رچا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ داعش کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ امریکہ کی سربراہی میں بننے والے داعش مخالف اتحاد کا اصلی مقصد مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی اور قتل و غارت کا بازار گرم رکھنا ہے۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے منحوس مقاصد کو کبھی بھی حاصل نہ کر پائیں گے۔"  
 
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر تکفیریت کے مقابلے میں مسلمان علماء دین کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ علماء دین کی ایک اہم ذمہ داری عالمی سطح پر ایک ایسی علمی اور منطقی تحریک کا آغاز کرنا ہے جس کی مدد سے تکفیری سوچ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ تکفیری عناصر خود کو غلط طور پر سلف صالح کے طور پر پیش کرتے ہیں، لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ دین، علم اور منطق کی زبان کے ذریعے حقیقی سلف صالح کی جانب سے تکفیریت سے بیزاری کا اظہار کیا جائے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ اس علمی اور منطقی تحریک کے ذریعے تکفیریت کے جال میں پھنسے معصوم مسلمان جوانوں کو نجات دلائی جائے۔ یہ ذمہ داری دینی علماء پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے تکفیری دہشت گردی میں امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے کردار کو فاش کرنے کو مسلمان علماء دین کا ایک اور اہم وظیفہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
"علماء دین کا تیسرا اہم وظیفہ مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو اجاگر کرنا اور اس سے غفلت برتے جانے کو روکنا ہے کیونکہ یہ عالم اسلام کا اصلی ترین ایشو ہے۔"  
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اسرائیلی کابینہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دیئے جانے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم قدس شریف اور مسجد اقصٰی پر قبضہ کرکے فلسطینی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام اور حکومت مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صہیونی رژیم کی دشمنی پر متفق ہیں اور وہ امام خمینی (رہ) کے راستے پر گامزن ہیں اور اس سے ذرہ برابر منحرف نہیں ہوئے۔ امام خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایرانی جوان اور عوام اپنے دل و جان سے فلسطینی عوام کا دفاع کرنے کو تیار ہیں اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف لڑنے کے عاشق ہیں کہا: "خداوند متعال کے لطف و کرم سے اسلامی جمہوریہ ایران مذہبی اختلافات اور محدودیتوں کا شکار نہیں ہوا۔ ہم نے جیسے حزب اللہ لبنان جو ایک شیعہ گروہ ہے، کی مدد کی ویسے ہی حماس اور اسلامک جہاد اور دوسرے فلسطینی مجاہد گروہ جو سنی ہیں، کی بھی مدد کی ہے اور اپنی اس مدد کو جاری رکھیں گے۔"  
 
ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے غزہ میں فلسطینی بھائیوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کو اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی مدد کا ایک نمونہ قرار دیا اور کہا کہ جیسا کہ ہم پہلے بھی یہ اعلان کرچکے ہیں، فلسطین کا مغربی کنارہ بھی مسلح جہاد کیلئے تیار ہوجانا چاہئے اور ایسا ہو کر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج اسلام دشمن قوتیں ماضی کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہیں اور مغربی ممالک اس وقت شدید اقتصادی، سیاسی اور سکیورٹی مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی صورتحال سب سے زیادہ خراب ہے اور اسے بے شمار اخلاقی، سیاسی اور مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مشکلات نے امریکہ کو بحیثیت سپر پاور انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ اسرائیل بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ کمزور ہوگیا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جو ایک زمانے میں نیل سے لے فرات تک کی سرزمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا کرتا تھا، لیکن حال ہی میں غزہ کے خلاف 51 روزہ جنگ میں اس کی قلعی کھل گئی اور دنیا والوں نے دیکھا کہ وہ حتی حماس اور اسلامک جہاد کی جانب سے کھودی گئی سرنگوں کو بھی مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکامی کا شکار رہا۔ 
 
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خطے خاص طور پر عراق، شام اور لبنان میں اسلام دشمن قوتوں کی ناکامیوں اور مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "دشمن کی کمزوری کا ایک اور ثبوت ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ ہے۔ امریکہ اور یورپی استعماری ممالک نے ایک ہو کر جوہری تنازعات میں اسلامی جمہوری ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ناکامی ہی ان کا نصیب بنے گی۔"  
 یاد رہے ایران کے شہر قم المقدسہ میں منعقد ہونے والی دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس میں شام، پاکستان، لبنان، عراق اور 84 دوسرے ممالک سے تقریباً 315 علماء دین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 700 مقالات بھی بھیجے گئے، جن میں سے 144 مقالات پر مشتمل کتاب بھی شائع کی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 421465
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش