0
Friday 28 Nov 2014 23:47
نسل پرستی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیخلاف احتجاج میں شدت

امریکی شہر فرگوسن میں مشتعل عوام نے مجسمہ آزادی گرا ڈالا

امریکی شہر فرگوسن میں مشتعل عوام نے مجسمہ آزادی گرا ڈالا
اسلام ٹائمز۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق امریکی ریاست میسوری کے شہر فرگوسن میں نسل پرستی اور سیاہ فام شہریوں کے خلاف پولیس کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہ احتجاج اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب ایک امریکی عدالت نے اس امریکی پولیس افسر کو باعزت بری کر دیا، جس نے 17 سالہ سیاہ فام نوجوان کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واضح ناانصافی کے خلاف امریکی شہر فرگوسن میں شدید احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ہوگیا اور صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ انتظامیہ نے سپشل گارڈز کے دستوں کو طلب کرکے شہر کے مختلف حصوں میں تعینات کر دیا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق امریکہ میں شروع ہونے والے نسل پرستی کے خلاف یہ مظاہرے دوسرے شہروں تک پھیل چکے ہیں۔  

روسیا الیوم نیوز ویب سائٹ کے مطابق امریکی شہر فرگوسن میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف پولیس کی جانب سے اکثر ظالمانہ اقدامات انجام پاتے رہتے ہیں۔ اس شہر میں عوام کی جانب سے پولیس کے غیرانسانی اور نسل پرستانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگست میں اس وقت شروع ہوا، جب پولیس نے مائیکل براون نامی ایک 18 سیاہ فام شہری کو دن دیہاڑے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس پر ایک سپر سٹور سے سگریٹ کا ایک پیکٹ چرانے کا الزام لگایا گیا تھا اور پولیس نے اس جرم میں اسے اشتہاری مجرم قرار دے رکھا تھا۔ پولیس نے اسے ایسی حالت میں قتل کیا جب وہ غیر مسلح تھا اور اس نے تسلیم ہونے کی علامت کے طور پر اپنے دونوں ہاتھ بھی اوپر اٹھا رکھے تھے۔ اس وقت سے فرگوسن میں حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ امریکہ کے سیاہ فام شہری پولیس کے اس اقدام اور اب ایک اور نوجوان سیاہ فام کے قتل میں ملوث پولیس افسر کو باعزت بری کرنے کے اقدام کو سیاہ فام شہریوں کے خلاف کھلا ظلم اور ناانصافی قرار دیتے ہیں۔ 
 
امریکی شہر فرگوسن کی آباد 21 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جن میں سے 70 فیصد سیاہ فام ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس شہر کی پولیس میں سفید فام سپاہیوں کی تعداد سیاہ فام سپاہیوں سے 15 گنا زیادہ ہے۔ فرگوسن پولیس نے حال ہی میں 17 سالہ سیاہ فام نوجوان کے قاتل پولیس افسر کو چھپانے کی کوشش کی۔ اس بار بھی قتل ہونے والا سیاہ فام غیر مسلح تھا۔ امریکی شہر فرگوسن میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے اور عوامی احتجاج اس بات کا باعث بنے ہیں کہ امریکی محکمہ پولیس اپنے افسروں اور سپاہیوں کی جانب سے اسلحہ حمل کرنے کی کھلی آزادی ختم کرنے کی سوچ میں پڑ جائے۔ امریکی محکمہ پولیس ایسا قانون بنانے کی سوچ رہا ہے جس کے تحت پولیس افسران اور سپاہیوں کو صرف خاص حالات میں اسلحہ پاس رکھنے کی اجازت ہوگی۔ یاد رہے نائن الیون کے حوادث کے بعد امریکی پولیس کو وسیع اختیارات سونپ دیئے گئے تھے اور انہیں دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے ہر قسم کا اسلحہ پاس رکھنے کی بھی اجازت حاصل ہوگئی تھی۔ مائیکل براون کے قاتل پولیس افسر کا نام ڈیرن ولسن ہے۔ اس نے ای بی سی ٹی وی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سیاہ فام شہری کو قتل کرکے اس نے اپنی قانونی ذمہ داری انجام دی ہے۔ 
 
فرگوسن میں ہونے والے مظاہروں کے حق میں امریکہ کے دوسرے شہروں جیسے واشنگٹن، نیو یارک وغیرہ میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مظاہرین نے ہاتھ میں پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں جن پر "فرگوسن کے شہریوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں"، "پولیس کی جانب سے نسل پرستانہ دہشت گردی بند کی جائے"، "مائیکل براون کے گھر والوں کو انصاف مہیا کیا جائے"، "پولیس کو ہر 48 گھنٹے میں ایک سیاہ فام کو قتل نہیں کرنا چاہئے" جیسے نعرے درج تھے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف پولیس کے رویے اور نسل پرستانہ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں شدت آگئی ہے۔ 
 
مائیکل براون کا واقعہ جس نے امریکہ بھر میں تشدد آمیز مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، نہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی آخری ہوگا۔ ماضی میں بھی امریکہ میں اس جیسے بیشمار واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ جنوری میں نیویارک پولیس کے کئی اہلکار ایک 43 سالہ سیاہ فام پر ٹوٹ پڑے۔ ایک پولیس اہلکار نے اسے گلے سے دبوچ لیا۔ سیاہ فام شہری سانس کی بیماری میں مبتلا تھا۔ وہ بے چارہ چیختا رہا کہ مجھے سانس نہیں آ رہا لیکن پولیس اہلکار نے اسے نہ چھوڑا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں دم توڑ گیا۔ اسی طرح مائیکل براون کا پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے کے صرف ایک ہفتے بعد ایک اور سیاہ فام شہری پولیس کے ہاتھ قتل کر دیا جاتا ہے۔ 20 اگست کو سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں اس کے قتل کی کہانی فاش ہوجاتی ہے۔ اسی طرح 8 اکتوبر کو بھی ایک اور سیاہ فام شہری پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا۔ اس پر پولیس نے تقریباً 17 گولیاں فائر کیں۔ 
 
انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے اور پولیس کی جانب سے شہریوں کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ میں رہنے والے سیاہ فام شہریوں کے خلاف معاشرتی اور معاشی سطح پر بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ سیاہ فام شہری امریکہ کی فقیر اور غریب آبادی میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص یعنی براک اوباما صدر کے عہدے پر فائز ہیں لیکن ان کے صدر بننے کے بعد بھی امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان تمام حوادث اور واقعات نے اس اہم سوال کو جنم دیا ہے کہ ایک ایسا ملک جو خود اپنے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے کس طرح دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ٹھیکہ دار اور چیمپئن بنا پھرتا ہے؟ واشنگٹن حکومت دنیا کے جس حصے میں چاہتی ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بہانہ بناتے ہوئے فوجی مداخلت کا نشانہ بناتی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 421980
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش