0
Sunday 14 Dec 2014 14:52
ایران کسی کا دشمن نہیں

ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی حقیقت نہیں، برطانوی رکن پارلیمنٹ

مغرب کی فوجی مداخلت داعش کو ختم نہیں کر سکتی
ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی حقیقت نہیں، برطانوی رکن پارلیمنٹ
اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ رچرڈ بیکن نے فارس نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے خطے میں جاری دہشت گردی اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے پر تاکید کرتے ہوئے امریکہ کی سربراہی میں مغربی اتحاد کی جانب سے داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی بمباری کو غیرموثر اور ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق اور شام سے داعش کا خاتمہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس کے خلاف ایک وسیع زمینی کاروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے ذریعے اب تک کوئی بڑی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ خود امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے عوام یہ نہیں چاہتے کہ ان کی مسلح افواج عراق یا شام میں داعش کے خلاف زمینی کاروائی کا حصہ بنیں۔ برطانیہ کے جنوبی علاقے نارفولیک سے منتخب کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ رچرڈ بیکن نے اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ کی سربراہی میں مغربی اتحاد کی جانب سے شام اور عراق میں داعش مخالف کاروائیاں کس حد تک موثر ثابت ہوئی ہیں کہا،"میری نظر میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے خطے میں فوجی مداخلت کے ذریعے داعش کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہوائی حملے داعش کو ختم نہیں کر سکتے اور مغربی اتحاد کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں"۔ 
 
رچرڈ بیکن نے کہا کہ داعش کے خاتمے کیلئے زمینی کاروائی کا انجام پانا انتہائی ضروری ہے لیکن یہ آپریشن خود عراقی اور شامی فورسز کی جانب سے انجام پانا چاہیئے کیونکہ خود امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک کے عوام نہیں چاہتے کہ ان کی مسلح افواج عراق اور شام میں داعش مخالف آپریشن میں شامل ہوں۔ لہذٰا یہ مسئلہ خود عراقی اور شامی عوام اور مسلح افواج کو حل کرنا چاہیئے۔ انہوں نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خاتمے کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ داعش کا اصل ہدف مسلمان ہیں۔ لہذٰا اس کے خاتمے کیلئے سب سے پہلے مسلمانوں کا آپس میں متحد ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں سب سے پہلے مسلمانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ داعش کے خاتمے کیلئے کس قسم کے اقدامات انجام پانا ضروری ہیں اور خطے میں داعش کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں۔ 
 
برطانوی رکن پارلیمنٹ رچرڈ بیکن نے اس سوال کے جواب میں کہ برطانیہ کی جانب سے نصف صدی گزر جانے کے بعد مشرق وسطی میں واپس لوٹنے اور بحرین میں مستقل فوجی اڈہ قائم کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں وہ وقت بھی تھا جب برطانیہ ایک عظیم استعماری قوت کے طور پر جانا جاتا تھا اور اس خطے میں اس کی موثر موجودگی تھی لہذٰا اب وہ اپنی گذشتہ شان و شوکت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے داعش کے بہانے خطے میں برطانوی بحری فوج کی موجودگی پر اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، ہوائی اور بحری فوج کے ذریعے داعش کا خاتمہ بالکل ممکن نہیں اور اس دہشت گرد گروہ کا خاتمہ صرف اور صرف زمینی کاروائی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ 
 
رچرڈ بیکن نے اس سوال کے جواب میں کہ برطانوی وزیر دفاع نے بحرین میں مستقل فوجی اڈے کی بنیاد رکھے جانے کی وجہ داعش سے خطرہ اور ایران سے خوف قرار دیا ہے، آپ کی نظر میں یہ دلیل کس حد تک درست ہے؟ کہا "حقیقت یہ ہے کہ برطانیہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے لہذٰا اپنی اکثر پالیسیوں میں امریکہ کی پیروی کرتا ہے۔ خطے میں برطانیہ کی فوجی موجودگی امریکہ کے دوسرے اتحادی ممالک جیسے سعودی عرب اور خلیجی عرب ریاستوں کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے جو بحرین میں برطانیہ کی جانب سے فوجی اڈہ تشکیل دیئے جانے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے"۔ 
 
برطانوی رکن پارلیمنٹ نے برطانوی وزیر دفاع کی جانب سے خطے کے ممالک کو ایران کی جانب سے خطرہ درپیش ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ دلیل ناقابل قبول ہے۔ رچرڈ بیکن نے کہا کہ میں برطانوی وزیر دفاع اور اسی طرح دوسرے ریپبلکن ارکان پارلیمنٹ کو یہ مشورہ دوں گا کہ وہ ایران آئیں اور حقیقت کو قریب سے دیکھیں، مجھے یقین ہے کہ ایران کے بارے میں ان کی رائے میں تبدیلی آئے گی۔ میری نظر میں ایران کسی کا دشمن نہیں اور اس سے خوف بلاوجہ اور غیرحقیقی ہے۔ 
 
انہوں نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی پیدائش میں خطے کے ممالک کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خطے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور بعض خلیجی ریاستیں اور اسی طرح ترکی نے داعش کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے داعش کی مدد ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث داعش کا خاتمہ مشکل ہو گیا ہے۔ لہذٰا ترکی اور ان عرب ممالک کی موجودگی میں خطے میں ایک دوطرفہ یا سہ طرفہ گیم شروع ہو چکی ہے۔ رچرڈ بیکن نے حال ہی میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے دورہ ترکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس دورے میں ترکی کے حکام پر زور دیا تھا کہ وہ داعش میں شامل ہونے کے قصد سے آنے والے برطانوی شہریوں پر نظر رکھیں اور داعش میں شامل امریکی شہریوں کے بارے میں بھی بات چیت کی تھی۔ رکن برطانوی پارلیمنٹ نے کہا کہ داعش میں شامل ہونے والے برطانوی شہریوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہے جنہیں ملکی اور سیاسی امور میں کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی لہذا وہ ذہنی تناو اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں شدت پسندانہ رجحانات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ داعش جیسے شدت پسندانہ گروہوں میں شامل ہو کر یہ محسوس کرتے ہیں کہ بڑے ہیرو میں تبدیل ہو گئے ہیں اور انہیں بہت احترام مل رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس طبقے کے افراد شام اور عراق جا کر داعش میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ البتہ ایسے افراد بھی کم نہیں جنہیں پیسے کا لالچ دے کر داعش میں شامل کیا جاتا ہے۔ داعش میں شامل ہونے والے مسلمان برطانوی شہری وہ افراد ہیں جنہیں اسلام کی تعلیمات کا صحیح علم نہیں۔ 
 
برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ رچرڈ بیکن نے کہا کہ داعش کی تشکیل سے پہلے بھی برطانیہ میں دہشت گردی کے خطرات موجود تھے اور برطانیہ میں دہشت گردی کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے اور پائیدار امن کے حصول کیلئے ضروری ہے کہ تمام ادیان اور مذاہب سے وابستہ افراد ایکدوسرے سے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میری نظر میں خطے کے شیعہ، سنی، یہودی اور عیسائی باشندوں کو داعش کے خلاف متحد ہو جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کوئی مذہبی گروہ نہیں بلکہ ایک دہشت گرد گروہ ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں لہذٰا تمام مذاہب کے افراد کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے۔ خطے میں امن قائم کرنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ 
 
خبر کا کوڈ : 425571
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش