0
Tuesday 23 Dec 2014 14:29

سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے دباؤ پر ایف آئی اے نے دہشتگردوں کی معاونت کی تحقیقات روک دیں

سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کے دباؤ پر ایف آئی اے نے دہشتگردوں کی معاونت کی تحقیقات روک دیں
ترتیب و تزئین: ایس زیڈ ایچ جعفری

سندھ پولیس سے وابستہ اعلیٰ افسران کے دباؤ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیررازم فنانسنگ) کی تحقیقات سرد خانے کی نذر کر دی ہیں، ایف آئی اے نے حوالہ اور ہنڈی کے مضبوط شواہد ہونے کے باوجود شہر کے معروف کار ڈیلر کو کارروائی کے بغیر رہا کردیا جبکہ اس سلسلے میں قبضے میں لیا جانے والا ریکارڈ بھی واپس کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے منظم کاروبار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے، دوران تحقیقات یہ سامنے آیا تھا کہ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیج کر نہ صرف ملکی خزانے کو خطیر مالی نقصان پہنچایا جا رہا ہے، جبکہ حوالہ اور ہنڈی کا چینل مشرق وسطی اور دنیا کے دیگرممالک سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا سبب بھی بن رہا ہے۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اسکینڈل کے مرکزی تحقیقات کار اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد نے یہ حقائق سامنے آنے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ درآمد کنندگان (امپورٹر) بڑے پیمانے پر حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہے ہیں، اور اس کے بدلے میں دہشت گردوں کے غیر ملکی فنانسرز اسی چینل کے ذریعے رقوم پاکستان منتقل کر رہے ہیں، جو کہ پشاور اور کوئٹہ کے ذریعے جنگ زدہ قبائلی علاقوں اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ برآمد کنندگان ٹیکس میں بچت کیلئے تقریبا روزانہ 2 کروڑ روپے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دبئی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک بھجواتے ہیں، تاہم رقم عملی طور پر بیرون ملک نہیں جاتی بلکہ دبئی موجود منی ایکسچینج کمپنیاں مشرق وسطی سے پاکستان بھیجنے کیلئے جمع ہونے والی رقم درآمد کنندگان کو دبئی میں فراہم کر دیتے ہیں، اور اس کے بدلے میں انھیں پاکستان سے بک کرائی جانے والی رقم پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانی ہوتی ہے، اور بعد ازاں زیادہ تر رقم قبائلی علاقوں میں بھجوا دی جاتی ہے۔

ایف آئی اے نے فوری طور پر پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں موجود 25 کروڑ روپے سے زائد کی رقم کو منجمند کر دیا تھا جو کہ تاحال منجمند ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرح پاکستان میں کرنسی کی اسمگلنگ نہیں کی جاتی، یعنی کبھی بھی ایئرپورٹ پر دیگر داخلی خارجی راستوں پر روپے یا ڈالر کی اسمگلنگ کے واقعات سامنے نہیں آتے، کیونکہ حوالہ اور ہنڈی کا منظم کاروبار اور مشرق وسطی اور پاکستان کی منی ایکسچینج کمپنیوں کے انتہائی مضبوط روابط کے نتیجے میں یہ کام صرف ایک ون کال پر ہی ہو جاتا ہے، اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کو کسی قسم کے رسک کا سامنا بھی نہیں پڑتا جو کہ رقم کی فزیکل اسمگلنگ میں ناگزیر ہے۔ رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیررازم فنانسنگ) کو روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان سے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک رقم بھیجنے والے درآمد کنندگان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کئے جائیں، اور انھیں مجبور کیا جائے کہ وہ قانونی چینل کے ذریعے زرمبادلہ بیرون ملک بھیجیں۔ تحقیقاتی افسر کی رپورٹ نے اعلیٰ حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی تھی اور اس سلسلے میں بعد ازاں انتہائی اعلیٰ سطح پر یہ ہونے والی مشاورت میں وزیراعظم سیکریٹریٹ، وفاقی وزارت داخلہ اور اسٹیٹ بینک کو بھی شامل کیا گیا تھا، مشاورت کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایف آئی اے کو درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے گی، تاہم ممکنہ کارروائی کو شفاف رکھنے اور کاروباری حضرات کو ہراساں نہ کرنے کی غرض سے ایف آئی اے کو پابند کیا تھا کہ صرف ایسے درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی جائے گی، جنھوں نے ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کا زرمبادلہ حوالہ اور ہنڈی کے غیر قانونی کاروبار کے ذریعے بیرون ملک بھجا ہو۔

فیصلے کے نتیجے میں ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 01/2014 رجسٹرڈ کی گئی تھی، اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد کرائم سرکل نے کراچی کے معروف کار ڈیلروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کی درآمد کیلئے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھجوائی گئی رقوم کے ثبوت حاصل کرکے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت مانگی تھی، تاہم اس دوران ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوگئے اور چند ماہ تک اس عہدے پر باقاعدہ طور پر کسی افسر کو تقرر نہیں کیا جا سکا، اعلیٰ افسران کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کی اجازت ملنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایف آئی اے کرائم سرکل نے ڈاکٹر ضیا الدین احمد روڈ پر واقع کلیئرنگ اینڈ فارورڈنگ ایجنٹ میسرز اوورسیز ٹرانزٹ ایجنٹ کے مالک کو حراست میں لیکر کار ڈیلروں کی جانب سے درآمد کی جانے والی لگژری گاڑیوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا تھا، اور ملنے والے ثبوتوں کی روشنی میں کشمیر روڈ کے قریب واقع فیصل موٹرز پر چھاپہ مار کر اس کے مالک فیصل شیخ کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران ملنے والے ریکارڈ کے مطابق مقدمے درج کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ سندھ پولیس میں تعینات ڈی آئی جی کے عہدے کے چند افسران میدان میں کود پڑے، اور انھوں نے ڈائریکٹر ایف آئی اے پر حراست میں لئے جانے والے ملزمان کو چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، اور چند گھنٹوں بعد حراست میں لئے جانے والے افراد کو شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا، بعد ازاں مقدمہ درج کرنے کے احکام بھی واپس لے لئے گئے اور تمام ریکارڈ بھی واپس کر دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی پولیس ساؤتھ زون کے اعلیٰ افسر اس سلسلے میں مسلسل ڈائریکٹر ایف آئی اے پر دباؤ ڈالتے رہے اور اسی دباؤ کے نتیجے میں نہ صرف مقدمہ درج نہیں کیا گیا، بلکہ اس عمل کو قانونی ثابت کرنے کیلئے یہ ہدایت جاری کی گئی کہ رجسٹرڈ کی جانے والی انکوائری میں موجود دیگر الزام کی تحقیقات بھی پہلے مکمل کی جائیں۔

ایف آئی اے کے سینئر اہلکاروں کے مطابق جب اعلیٰ افسران کسی معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنا چاہتے ہیں، تو وہ تحقیقات کو نامکمل قرار دے کر کارروائی سے روک دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کسی بھی تحقیقات کو اسی طرح آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ ایک الزام بھی ثابت ہو تو متعلقہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا آغازکر دیا جائے، جس کی مثال ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل ہے، ایف آئی اے نے پہلا مقدمہ چند لاکھ روپے کی بدعنوانی کے الزام میں درج کیا تھا، جو کہ بعد ازاں تحقیقات کو تقریبا 5 ارب روپے کے مالی اسکینڈل تک پہنچانے کا سبب بنا۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون شاہد حیات نے کہا کہ دہشتگردوں کی مالی معاونت یا ٹیررازم فنانسنگ کی تحقیقات سرد خانے کی نذر نہیں کی گئی ہیں، بلکہ اس سلسلے میں جامع تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ مقدمہ درج کرنے کی اجازت دیئے جانے کے باوجود کارروائی نہیں کی گئی، تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ تحقیقات مکمل ہوتے ہی تمام ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ قارئین کی معلومات میں اضافہ کیلئے بتاتے چلیں کہ رواں سال 2014ء کے اوائل میں میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق فاٹا اور بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کو بینکنگ چینل کے ذریعے فنڈز کی فراہمی کی جا رہی ہے، ملک کی نامور منی ایکسچینج کمپنیاں بینک افسران کی ملی بھگت سے ہر ماہ اربوں روپے پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی اکائونٹس میں منتقل کر رہی ہیں۔ منی لانڈرنگ اور ٹیررسٹ فنانسنگ کے سدباب کیلئے بنایا جانے والا ادارہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور دیگر متعلقہ ادارے اپنی ناک کے نیچے ہونے والے حوالہ اور ہنڈی کے غیر قانونی کاروبار سے مکمل طور پر یا تو بے خبر ہیں یا غفلت برتتے رہے، ایف آئی اے نے کئی ارب روپے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے کوئٹہ اور پشاور منتقل کئے جانے کے ثبوت حاصل کئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں کی جانے والی اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے بڑے پیمانے پر حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار اور اس کے اہم کرداروں کا راز طشت ازبام کر دیا تھا۔

تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ حوالہ اور ہنڈی کے منظم کاروبار کے ذریعے دہشتگرد تنظیموں کو فنڈز کی فراہمی کے بھی اہم شواہد سامنے آئے اور اگر تحقیقاتی ادارے ہر ماہ پشاور، کوئٹہ اور بعض اوقات آزاد کشمیر میں کھلوائے گئے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے رقم وصول کرنے والے افراد کا کھوج لگا لیں، تو ان رقوم کے ذریعے کی جانے والی دہشتگردانہ کارروائیوں کا بھی پتہ لگایا جا سکے۔ تحقیقاتی افسران نے ہوشربا حقائق سامنے آنے کے بعد حوالہ اور ہنڈی کے وسیع اور منظم کاروبار کے خلاف تمام تر توانائیوں کے ساتھ تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا، تاحال ایف آئی اے حکام مختلف نجی بینکوں سے ایک ارب روپے سے زائد پشاور اور کوئٹہ کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرنے کے شواہد ملنے کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت درجن سے زائد مقدمات درج کر چکے اور ان الزامات میں نجی بینکوں کے درجنوں افسران بھی گرفتار ہوئے، ہنڈی اور حوالے کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث پاکستان کی ایک نامور منیایکس چینج کمپنی کے بے نامی اکائونٹس کے ذریعے صرف چند ماہ کے دوران 34 ارب روپے پشاور اور کوئٹہ منتقل کے گئے اور حیران کن امر یہ تھا کہ بینک اور منی ایکسچینج کمپنیاں ان رقم کے مالکان اور منتقل کئے جانے والے افراد سے مکمل طور پر لاعلم رہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق اس ساری صورتحال میں تشویشناک امر یہ ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا قیام اسی مقصد کیلئے کیا گیا تھا کہ کسی بھی مشکوک بینک ٹرانزیکشن کی جانچ پڑتال کے بعد اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ریفر کرنا تھا، تاکہ منی لانڈرنگ اور ٹیررسٹ فنانسنگ کا سدباب کیا جا سکے، تاہم گزشتہ کئی سالوں سے جاری بینکنگ چینل کے ذریعے کھلے عام جاری حوالہ اور ہنڈی کے منظم نیٹ ورک اور اسکے ذریعے دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق نہ صرف ایف ایم یو لاعلم رہا، بلکہ تمام نجی بینکوں کے ریگولیٹر کے طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اس غیر قانونی کاروبار کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کرنے سے قاصر رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 427600
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش