0
Sunday 28 Dec 2014 14:21

ایم کیو ایم نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے 8 نکاتی ایجنڈا پیش کردیا

ایم کیو ایم نے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے 8 نکاتی ایجنڈا پیش کردیا
اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ نے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے 8 نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا ہے، جس میں پولیس اور استغاثہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، قومی نصاب تعلیم میں ترامیم، ملک سے دہرے معیار تعلیم کے خاتمے، مخصوص مدت کے لئے فوجی عدالتوں کا قیام اور ایجنسیوں کے درمیان موثر رابطوں پر زور دیا گیا ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 16 دسمبر کا سانحہ پشاور پاکستان کا نائن الیون تھا، جس نے ہمارے معاشرے پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9 ستمبر 2013ء کو ایم کیو ایم نے آل پارٹیز کانفرنس میں انسداد دہشتگردی پالیسی کو پیش کیا، اگر اس قومی پالیسی کو اپنا لیا جاتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، لیکن حقیقت کے برعکس اقدامات اٹھائے گئے اور سارا انحصار ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات پر کیا گیا جو نہ ہتھیارڈالنے پر تیار تھے اور نہ ہی ریاست پاکستان اور آئین کو ماننے پر تیار تھے۔ فاروق ستار نے مزید کہا کہ فوجی آپریشن کو مذاکرات کی ناکامی پر انتہائی تاخیر سے شروع کیا گیا، 16 دسمبر نے سیاسی جماعتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے، ایک مرتبہ پھر مذاکرات اور فوجی آپریشن کے بعد قوم کی توقعات کو فوجی عدالتوں سے جوڑا جا رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، یہ ایک وقتی حل ہے اور سیاسی قوتوں نے کئی یقین دہانیوں کے بعد اسے منظور کیا ہے، ملٹری کورٹس کی مدت مقرر ہونی چاہیے۔

فاروق ستار نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے مؤثر نظام، کمیونٹی پولسنگ اور محلوں میں چوکیداری نظام کے بغیر فوجی عدالتیں بھی بے کار ثابت ہوں گی، پولیس اور استغاثہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، ججوں اور گواہوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے، دہشتگردوں کے سہولت کاروں، سرپرستوں، حامیوں اور ان کی مالی امداد کرنے والے لوگوں اور مذہبی جماعتوں سے دوٹوک پوچھنا ہوگا کہ وہ ریاست کے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی نصاب سے نفرت انگیز مواد کو حذف کرنا، مردم شماری اور ملک میں نئے انتظامی یونٹس کا قیام بھی دہشتگردی کے خاتمے کا لازمی چیزیں ہیں، ملک کے تمام مدارس موجودہ حالات کے ذمہ دار نہیں لیکن کچھ مدارس کا اس میں کردار ضرور ہے، ملک میں دہرا تعلیمی نظام اب ختم ہونا چاہیے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی سپلائی لائن کو توڑنا ہوگی، اس سلسلے میں ہمیں اسپیشل ٹاسک فورس کا قیام بھی عمل میں لانا ہوگا، اس کے علاوہ ایجنسیوں کے درمیان مؤثر رابطے نہیں، جو ہونے چاہیں، اسلحے کی رسد کے ذمہ داروں کو بھی لگام دی جائے، اس کیلئے ہمیں پورے پاکستان کو اسلحے سے پاک کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیکٹا کو مزید فعال بنایا جائے، اس کے ساتھ ہی اس ادارے پر پارلیمان کی نگرانی ضروری ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ایک عارضی حل ہے، ایم کیو ایم صرف دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام پر راضی ہوئی ہے، اگر اسے سیاسی جماعت کے خلاف استعمال کیا گیا تو ایم کیو ایم عدالت سے رجوع کرے گی، آئین میں ترمیم کے بغیر ملک میں اگر فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تو سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے دیگی، اور ایم کیو ایم بھی اس کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک اور پاکستان میں زمینی حقائق مختلف ہیں، پاکستان کے قانون میں پھانسی کی سزا ہے مگر یہ سزا بہت بڑی ہے، پھانسی صرف انھیں دی جائے جو بڑے بڑے جرائم میں ملوث ہوں۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کی پاکستان رابطہ کمیٹی کے انچارج قمر منصور نے کہا کہ سانحہ پشاور کے بعد ملک کے تمام اسکول غیر محفوظ ہوگئے ہیں، حکومت اگر چاہے تو ایم کیو ایم کے کارکنان رضاکارانہ طور پر اسکولوں کی سیکیورٹی کے لئے تیار ہیں، دہشت گردی کے خطرات پر الطاف حسین کو سخت تشویش ہے، الطاف حسین دہشت گردی کے خطرات پر مسلسل مشاورت کر رہے ہیں، ایم کیو ایم واحد جماعت ہے، جس نے انسداد دہشت گردی سے متعلق سفارشات دیں، آج وہ تمام سیاسی جماعتیں جو طالبان کا نام نہیں لیتیں، عوام کے سامنے آچکی ہیں، جب تک مسجد ضرار جیسی مساجد اور جامعہ حفصہ جیسے مدارس ہوں گے ہم دہشتگردی کو ختم نہیں کر سکتے۔
خبر کا کوڈ : 428689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش