2
0
Thursday 22 Jan 2015 22:29

یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا پیغام

یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا پیغام
اسلام ٹائمز۔ فرانس میں حالیہ واقعات اور بعض دیگر مغربی ممالک میں اس سے ملتے جلتے واقعات نے مجھے اس بات پر تیار کیا کہ میں ان کے بارے میں براہ راست آپ سے بات کروں۔ میں آپ نوجوانوں کو اپنا مخاطب قرار دے رہا ہوں؛ اس وجہ سے نہیں کہ آپ کے والدین کو نظرانداز کر رہا ہوں بلکہ اس وجہ سے آپ سے مخاطب ہوں کہ آپ کی قوم اور سرزمین کا مستقبل آپ نوجوانوں کے ہی ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں اور اس کے علاوہ آپ کے دلوں میں حقیقت کی تلاش کا جذبہ زیادہ زندہ   اور تر و تازہ دیکھ رہا ہوں۔ اسی طرح اس تحریر میں آپ کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی مخاطب نہیں کروں گا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جانتے بوجھتے ہوئے بھی سیاست کے راستے کو سچائی اور صداقت کے راستے سے الگ کر دیا ہے۔
 
آپ سے میری بات اسلام کے بارے میں ہے اور خاص طور پر اسلام کی اس شبیہ اور چہرے کے بارے میں ہے جو آپ کے سامنے پیش کی جا رہی ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں سے، یعنی سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سے اس عظیم دین کو ایک خوفناک دشمن کے طور پر پیش کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ رعب و وحشت اور نفرت کا بازار گرم کرنے اور اس سے استفادہ کرنے کا، مغرب کی سیاسی تاریخ میں ایک طویل ماضی ہے۔ میں یہاں مغربی قوموں تک پہنچائے گئے مختلف قسم کے خوف و ہراس کو بیان کرنا نہیں چاہتا، آپ خود تاریخ کے بارے میں حالیہ تنقیدی مطالعات یا ریسرچ کا ایک مختصر جائزہ لینے سے جان لیں گے کہ جدید تاریخ نگاری میں دنیا کی دیگر قوموں اور ثقافتوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کے غیر صادقانہ اور مکر و فریب پر مبنی رویے اور طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے۔

یورپ اور امریکہ کی تاریخ آج بردہ داری اور غلام بنانے کے اپنے پیشروؤں کے اقدامات پر شرمسار ہے، امریکہ اور یورپ کے سامراجی دور (کے واقعات) پر اس کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے، رنگین فاموں اور غیر مسیحیوں پر ظلم و ستم پر یہ تاریخ شرمندہ ہے؛ آپ کے محققین اور مؤرخین پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں قومیت کے نام پر یا کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان مذہب کے نام پر ہونے والی جنگوں اور خونریزیوں پر بری طرح سبکی محسوس کر رہے ہیں۔
 
یہ (احساس شرمندگی) اپنی جگہ قابل تعریف ہے اور اس طویل فہرست کے بعض حصے کو بیان کرنے سے میرا مقصد تاریخ کی سرزنش کرنا نہیں ہے بلکہ میں آپ سے  کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے روشن خیال لوگوں سے پوچھیں کہ ایسا کیوں ضروری ہے کہ مغرب میں عام لوگوں کا ضمیر و وجدان ہمیشہ دسیوں سال اور کبھی کبھی کئی صدیوں کی تاخیر سے ہی بیدار اور آگاہ ہو؟ کیوں اجتماعی ضمیر میں نظرثانی ماضی بعید پر مرکوز ہوتی ہے نہ کہ عصر حاضر کے مسائل پر؟ کیوں اسلامی ثقافت و نظریئے کے ساتھ سلوک اور طرز عمل جیسے اہم مسئلے میں لوگوں میں آگہی اور بیداری کو روکا جاتا ہے۔؟
 
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ "دوسرے" کے بار ے میں نفرت پیدا کرنا، اس کی تحقیر و بے عزتی اور اس کے سلسلے میں  ایک انجانا خوف پیدا کرنا، ظالمانہ مفاد پرستی کا مشترکہ زمینہ رہا ہے۔ اب میں  آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خود اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ کیوں خوف و دہشت اور نفرت پھیلانے کی پرانی پالیسی نے اس بار اتنی شدت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی؟ کیوں دنیا کی بڑی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ اسلامی تعلیمات اور نظریات کو دیوار سے لگا دیا جائے؟ آخر اسلام کی کون سی تعلیمات اور اقدار بڑی طاقتوں کے پروگرام کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اسلام کی غلط تصویر پیش کرکے کون سے مفادات پورے کئے جا رہے ہیں؟ پس میری پہلی درخواست یہ ہے کہ اسلام کے خلاف اس وسیع  پیمانے پر انجام دی جانے والی سیاہ نمائی (اور سازشوں) کے محرکات کے بارے میں سوال اور تحقیق کیجئے۔
 
میری دوسری درخواست یہ ہے کہ (اسلام کے بارے میں) پیشگی قضاوت اور منفی پروپیگنڈے کے سیلاب پر اظہار رائے کرتے وقت کوشش کیجئے کہ اس دین کے بارے میں براہ راست اور بلاواسطہ شناخت حاصل کیجئے۔ عقل سلیم اس بات کی متقاضی ہے کہ کم از کم یہ جان لیجئے کہ جس چیز سے آپ کو دور کیا جا رہا ہے اور ڈرایا جا رہا ہے، وہ کیا ہے اور اس کی ماہیت و حقیقت کیا ہے؟ میں اصرار نہیں کرتا کہ اسلام کے بارے میں میرے خیالات یا کسی اور کی بات کو قبول کر ہی لیجئے بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ آج کی دنیا میں یہ اثر انگیز اور پھلتی پھولتی حقیقت، آلودہ اغراض اور مقاصد کے ساتھ (توڑ مروڑ کر اور بگڑی ہوئي شکل میں) آپ کے سامنے پیش کی جائے۔

آپ اس بات کی اجازت نہ دیجئے کہ ریاکارانہ اور مکارانہ طریقے سے وہ اپنے زرخرید دہشت گردوں کو اسلام کے نمائندوں کی حیثیت سے آپ کے سامنے پیش کریں۔ اسلام کی اس کے اصل ذرائع اور بنیادی مآخذ کے ذریعے معرفت حاصل کیجئے اور اس کی صحیح حقیقت جاننے کی کوشش کیجئے۔ اسلام کی آشنائی قرآن اور اس کے عظیم پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی  سے حاصل کیجئے۔ میں یہاں پر پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ نے اب تک براہ راست مسلمانوں کے قرآن کی جانب رجوع کیا ہے؟ کیا آپ نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور ان کی انسانی و اخلاقی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا اب تک اسلام کے پیغام کو میڈیا کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟

کیا آپ نے کبھی خود اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ اسی اسلام نے کس طرح اور کن اقدار کی بنیاد پر گذشتہ صدیوں کے دوران دنیا کے سب سے بڑے علمی و فکری تمدن کی پرورش کی اور بہترین دانشوروں اور مفکرین کی تربیت کی؟ میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اجازت نہ دیں کہ توہین آمیز اور پست خاکوں اور تصویر کشی کے ذریعے آپ کے اور حقیقت کے درمیان، جذباتی و احساساتی دیوار کھڑی کریں اور آپ سے غیر جانبدارانہ قضاوت کا امکان چھین لیں۔ آج جبکہ مواصلاتی ذرائع نے جغرافیائی سرحدوں کو ختم کر دیا ہے، اجازت نہ دیجئے کہ  وہ آپ کو ذہنی اور خود ساختہ سرحدوں کے اندر محصور کر دیں۔ اگرچہ کوئی بھی شخص اکیلے اور انفرادی طور پر پیدا ہونے والے شگافوں اور فاصلوں  کو پر نہیں کرسکتا، لیکن آپ میں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر ایک خود اپنی آگہی اور اپنے اطراف کے لوگوں کی آگاہی کے لئے ان شگافوں اور فاصلوں کے اوپر سوچ اور انصاف کا پل بنا سکتا ہے۔

اسلام اور آپ نوجوانوں کے درمیان پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ، اگرچہ ایک  ناگوار مسئلہ ہے لیکن حقیقت کے متلاشی آپ کے ذہنوں میں نئے سوالات پیدا کرسکتا ہے۔ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے کوشش، نئی حقیقتوں کو دریافت کرنے کے لئے آپ کو ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ بنابریں اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور کسی پیشگی قضاوت کے بغیر اس کے حقیقی ادراک کے لئے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے، تاکہ حقیقت کے بارے میں آپ کے احساس ذمہ داری کی برکت سے شاید آئندہ آنے والے لوگ اسلام کے ساتھ مغرب کے تعاون اور اشتراک عمل کی تاریخ جب رقم کريں تو اس کو نسبتاً کم آزردگی خاطر اور زیادہ آسودہ ضمیر کے ساتھ تحریر کریں۔
سید علی خامنہ ای
خبر کا کوڈ : 434401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Atif Ali
Pakistan
I like this.
United States
salam ho rehbar ali khamnae pe
ہماری پیشکش