0
Tuesday 27 Jan 2015 20:35

ہندو خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کے قانون کیخلاف وفاقی، صوبائی وزارت قانون سے جواب طلبی

ہندو خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کے قانون کیخلاف وفاقی، صوبائی وزارت قانون سے جواب طلبی
اسلام ٹائمز۔ لاہور ہائیکورٹ نے ہندو خواتین کو جائیداد کی وراثت سے محروم رکھنے کے قانون کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی اور صوبائی وزارت قانون سے ۳ ہفتوں میں جواب طلب کر لیا، عدالت نے پاکستان میں ہندو برادری کے نمائندوں اور آئینی ماہرین سے بھی معاونت طلب کرلی۔ ہندو خاتون سونیا تلریجہ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر اس درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ قانون میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ عدالت کسی مذہب یا اقلیت کے ذاتی قانون میں کیسے مداخلت کرسکتی ہے۔؟ ہندو برادری کے لوگوں چاہیے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کے لئے قومی اسمبلی کا دروازہ کھٹکھٹائیں، اس پر درخواست گزار کے وکیل علی سبطین فضلی نے موقف اختیار کیا کہ بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت کسی بھی قانون میں مداخلت کر سکتی ہے اور حکومت کو قانون میں ترمیم کے لئے کہہ سکتی ہے۔ اس پر فاضل جج نے کہا کہ عدالت ہندو برادری، آئینی ماہرین اور حکومت موقف سنے بغیر ہندو وراثتی ایکٹ میں مداخلت نہیں کرے گی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان میں ہندو وراثت ایکٹ ۱۹۲۹رائج ہے، جو تقسیم ہند سے قبل کا بنا ہوا ہے، اس ایکٹ کے تحت ہندو بھائی کی موجودگی میں بہن کو وراثتی جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ 

بھارت نے ۱۹۵۶میں اس قانون میں ترمیم کر کے ہندو خواتین کو بھی وراثتی جائیداد میں حصہ دار بنایا مگر پاکستان میں ابھی تک ۸۵ برس پرانا قانون رائج ہے، جو پاکستانی آئین سے متصادم ہے۔ آئین کے تحت جنس کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح آرٹیکل ۸ کے تحت تمام مرد اور خواتین برابر ہیں، دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ مسیحی برادری کے وراثت کے قانون کے خلاف بھی درخواست ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے۔ جس پر عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ دونوں درخواستوں کو یکجا کیا جائے۔ فاضل جج نے ہندو وارثتی ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی وزارت قانون سے ۳ ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
خبر کا کوڈ : 435470
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش