0
Saturday 31 Jan 2015 14:01
سید حسن نصراللہ کی تقریر کی تفصیلی رپورٹ

شہادت ہمارا افتخار اور مجھ سمیت ہر مجاہد کی قلبی آرزو ہے، سید مقاومت

شہادت ہمارا افتخار اور مجھ سمیت ہر مجاہد کی قلبی آرزو ہے، سید مقاومت
رپورٹر: زیڈ اے ہمدانی

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کل رات قنیطرہ میں شہید ہونے والے 6 حزب اللہ مجاہدین اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک افسر کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خطے کے موجودہ حالات اور حزب اللہ لبنان کی آئندہ پالیسیوں کی وضاحت کی۔ ذیل میں اس تقریر میں بیان شدہ اہم نکات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ اسلام ٹائمز اردو کے قارئیں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ 
 
شہداء قنیطرہ تین نسلوں پر مشتمل مزاحمت کی علامت ہیں:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے دو ہفتے قبل گولان ہائٹس سے متصل شام کے علاقے قنیطرہ میں اسرائیلی ہوائی حملے میں شہید ہونے والے مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں گذشتہ تین نسلوں پر مشتمل اسلامی مزاحمت کی علامت قرار دیا اور کہا: "بریگیڈیئر اللہ دادی اور حزب اللہ کے کمانڈر ابوعیسٰی کی ایک ساتھ شہادت سے شام کی سرزمین پر ایرانی اور لبنانی خون مل کر ایک ہوچکا ہے اور یہی اسلامی مزاحمت کا راز ہے۔ شہداء قنیطرہ درحقیقت اپنے گھرانوں کی مکتب جہاد و شہادت کے ساتھ مکمل وفاداری کو ظاہر کرتے ہیں۔" انہوں نے اسرائیلی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہو، جبکہ قتل ہو جانا ہماری سیرت ہے اور شہادت ہمارے نزدیک خداوند متعال کی جانب سے عطا کردہ عزت اور مقام ہے۔ سید حسن نصراللہ نے ایران اور لبنانی خون کے ایک ساتھ بہائے جانے کو اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں اتحاد و یگانگت کا مظہر قرار دیا اور کہا: "جب سے (عرب) حکومتوں اور سیاسی گروہوں نے (صہیونی رژیم کے مقابلے میں) جدوجہد کو تقسیم کر دیا ہے، اس وقت سے اسرائیل کے خلاف شکست کے شاہد ہیں اور جب سے شہداء کے خون نے ہماری قسمت اور تقدیر کو ایک کر دیا ہے، اس وقت سے ہماری کامیابیوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔" 
 
قنیطرہ کا واقعہ دن دیہاڑے دہشتگردی کی واضح مثال ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے قنیطرہ میں انجام پانے والی صہیونی جارحیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "اتوار 18 جنوری 2015ء کے دن اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹرز نے دو غیر فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اس میں سوار ساتوں افراد شہید ہوگئے۔ یہ افراد قنیطرہ کے علاقے کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہمارے لئے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ واقعہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت انجام پایا اور اس کی منصوبہ بندی اسرائیلی وزراء کونسل یا اسرائیلی وزیراعظم کے سپشل گروپ میں انجام پائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن نے مکمل تحقیق اور پورے حساب و کتاب سے معلومات جمع کیں اور تمام ممکنہ خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کی۔ قنیطرہ میں جو کچھ ہوا وہ ایک کھلی دہشت گردی تھی۔" 
 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل نے پہلے سے (قنیطرہ میں حزب اللہ لبنان کو) نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ البتہ یہ معلوم نہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے اعلٰی سطحی حکام کی جانب سے کس وقت بنایا گیا تھا۔ قنیطرہ کے واقعے نے ہمیں ایک کھلی اور دن دیہاڑے دہشت گردی کے مقابل لاکھڑا کیا، جس کی حقیقت میں کسی قسم کا کوئی ابہام موجود نہ تھا۔ جب شہید اللقیس کو نشانہ بنایا گیا، اس وقت بعض افراد کیلئے یہ کہنا ممکن تھا کہ انہیں اسرائیل نے نشانہ نہیں بنایا لیکن حالیہ دہشت گردانہ اقدام ایک اعلانیہ اور واضح دہشت گردی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے شہید عباس الموسوی، ان کی زوجہ اور ان کے بیٹے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے بارے میں ذرہ برابر شک و شبہ نہیں پایا جاتا۔ 
 
اسرائیل حزب اللہ لبنان کی جانب سے مناسب ردعمل کے انتظار میں تھا:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے کہا: "اسرائیلی جارحیت کے منظر عام پر آنے کے بعد سب اس بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے اور ان کے ذہن میں آنے والا ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا حزب اللہ اس جارحیت کے ردعمل میں کوئی اقدام کرے گی یا خاموشی اختیار کر لے گی؟ اور اگر اس کا جواب دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ جواب کیا ہوگا اور کیسے انجام پائے گا اور اس کی حدود و قیود کیا ہوں گی؟ یہ سوالات اتوار سے لے کر اس ہفتے بدھ تک لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھے۔ لیکن اس سے زیادہ گرم بحث اسرائیلی حکام کے درمیان ہو رہی تھی۔" 
 انہوں نے مزید کہا:
"لیکن اس وقت ان میں سے اکثر سوالات کا جواب دیا جا چکا ہے۔ جو چیز اہم ہے وہ حزب اللہ لبنان کی جانب سے قنیطرہ میں اسرائیلی جارحیت کے جواب میں انجام پانے والے اقدام کی ذمہ داری قبول کئے جانے کے بعد اسرائیلی حکام کی حالت ہے۔ ایسے وقت جب اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خطے کی ایک بڑی طاقت ہے، جس سے خطے کے تمام ممالک خوفزدہ ہیں، حزب اللہ نے اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور اسے خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ اسرائیل میں تو اتنی جرات بھی نہیں کہ قنیطرہ میں اپنی جارحیت کی رسمی ذمہ داری قبول کرے۔ اس نے ابھی تک اس دہشت گردانہ اقدام کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور آئندہ بھی نہیں کرے گا۔" 
 
اسرائیل گولان میں کیا کر رہا ہے؟
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے اسرائیل کی جانب سے قنیطرہ میں حزب اللہ کے مجاہدین کی ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں پیش کئے گئے بہانے کے بارے میں کہا: "اسرائیلی حکام نے اپنے تجزیہ نگاروں اور سیاسی ماہرین کی جانب سے بیروت کو بھیجے گئے پیغام میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ حزب اللہ لبنان کے مجاہدین مقبوضہ گولان کے علاقے میں کوئی کارروائی کرنا چاہتے تھے، لہذا اسرائیل نے انہیں نشانہ بنایا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین (مقبوضہ فلسطین کی) سرحد سے تقریباً 6 کلومیٹر دور تھے اور دونوں کے درمیان النصرہ فرنٹ کے ہزاروں مسلح دہشت گرد موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ کے مجاہدین مقبوضہ فلسطین کے اندر کسی ایسی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے جو مستقبل قریب میں انجام پانا تھی۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ حزب اللہ کے مجاہدین خطے میں میزائل لانچر نصب کر رہے تھے۔ اسرائیلی حکام سمجھتے ہیں کہ خطے میں اسلامی مزاحمت معرض وجود میں آ رہی ہے، لہذا اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل گولان کے سرحدی علاقے سے لے کر نیچے تک جہاں شام آرمی موجود ہے کیا کر رہا ہے۔؟"
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کے گولان ہائٹس سے متصلہ شامی علاقے میں النصرہ فرنٹ کے ہزاروں دہشت گرد موجود ہیں، جو ٹینک سے لے کر راکٹس اور میزائلوں تک جدیدترین اسلحہ سے لیس ہیں۔ اسرائیل کیوں انہیں اپنے لئے خطرہ نہیں جانتا؟ کیا وجہ ہے کہ اسرائیل کو ان سے کسی قسم کے خطرے کا احساس نہیں ہوتا، لیکن دو غیر فوجی گاڑیاں جن میں حزب اللہ کے صرف 6 مجاہدین سوار ہیں اور جن کے پاس ایک پستول کے علاوہ کسی قسم کا اسلحہ بھی نہیں، ان سے اس قدر شدید خطرے کا احساس کرتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں نشانہ بناتا ہے؟ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ میں خطے کے عرب عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بارے میں سوچیں۔ آخر کس وجہ سے اسرائیل النصرہ فرنٹ کے ہزاروں مسلح دہشت گردوں سے کسی قسم کے خطرے کا احساس نہیں کرتا اور حزب اللہ کے چند مجاہدین سے خطرہ محسوس کرتا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عرب عوام ان دہشت گردوں کی حقیقت کو پہچانیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اسرائیل انہیں تحفظ کیوں فراہم کر رہا ہے۔ 
 
قنیطرہ میں اسرائیلی جارحیت اور شبعا میں حزب اللہ کے جواب میں دو بنیادی فرق:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا کہ قنیطرہ میں اسرائیلی جارحیت اور شبعا میں ہمارے جواب میں دو بنیادی فرق پائے جاتے ہیں:
اسرائیلی جارحیت انتہائی بزدلانہ انداز میں انجام پائی۔ اسرائیل کے تمام اقدامات ایسے ہی بزدلانہ اور پست ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مورچوں کی پیچھے بیٹھ کر حملے کرتے ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان کے مجاہدین مردانہ وار میدان میں آکر لڑتے ہیں۔ حزب اللہ نے شبعا میں جو کارروائی کی وہ بھی ایسی ہی تھی۔ ہمارے مجاہدین نے ان کے علاقے میں گھس کر انہیں نشانہ بنایا اور دلیری اور شجاعت کی عظیم مثال قائم کر دی۔ 
اسرائیلی جارحیت اور ہمارے جواب میں ایک اور بنیادی فرق بھی تھا۔ اسرائیل میں اتنی جرات نہ تھی کہ وہ قنیطرہ میں اپنی ریاستی دہشت گردی کو رسمی طور پر قبول کرے اور میری معلومات کے مطابق اس نے ابھی تک رسمی طور پر اس واقعے کی ذمہ داری کو قبول نہیں کیا۔ اس کی وجہ اسرائیل کی بزدلی اور اس کا خوف تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہم شام میں شہید ہونے والے دوسرے مجاہدین کی طرح ان مجاہدین کی شہادت پر بھی خاموشی اختیار کر لیں گے اور اس سے اس کا بدلہ نہیں لیں گے۔ لیکن ہم نے نہ صرف اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ اپنے اس اقدام کی ذمہ داری بھی ببانگ دہل اور اعلانیہ طور پر قبول کی۔ ہم نے رسمی طور پر اعلان کیا کہ شبعا میں انجام پانے والی کارروائی ہمارے مجاہدین نے انجام دے۔ 
 
آج کے بعد ہر اسرائیلی جارحیت کا مناسب وقت اور جگہ پر منہ توڑ جواب دیا جائے گا:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ آج کے بعد ہم اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لائے ہیں، جس کے مطابق اب ہم اپنے ہر مجاہد یا کمانڈر کی ٹارگٹ کلنگ یا لبنانی سرزمین پر اسرائیلی جارحانہ اقدام کا مناسب وقت اور جگہ پر منہ توڑ جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے ہم نے اپنے بعض کمانڈرز کی شہادت کے بعد اسرائیل کو اس کا جواب نہیں دیا، لیکن آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا اور اگر ہمارا کوئی بھی مجاہد یا کمانڈر جہاں کہیں بھی شہید ہوگا، ہم اسرائیل کو اس کا ذمہ دار جانتے ہوئے اس کی شہادت کا بدلہ اسرائیل سے لیں گے۔ آج کے بعد ہم اسرائیل کے کسی جارحانہ یا دہشت گردانہ حملے کو بے جواب نہیں چھوڑیں گے۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل کو جان لینا چاہئے کہ اس کے مقابلے میں موجود اسلامی مزاحمت کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتی، کمزور نہیں ہے اور کسی سازباز کا شکار بھی نہیں ہوتی۔ انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ یہ نہ سوچے کہ ہم جنگ کے نام سے گھبراتے ہیں بلکہ اگر اس نے کسی جنگ کا آغاز کیا تو ہم اسے عبرتناک شکست کا مزہ چکھائیں گے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ شہادت ہمارا افتخار ہے اور مجھ سمیت ہر مجاہد کی قلبی آرزو بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی سیرت پر چلنے والے ہیں۔ وہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا جن سے جب یزید نے واقعہ کربلا کے بعد یہ کہا کہ خدا نے تم لوگوں کو ذلیل کیا تو انہوں نے جواب میں یہ تاریخی اور مشہور جملہ بولا کہ "ما رایت الا جمیلا" یعنی میں نے خوبصورتی اور جمال کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ ہم بھی آج قنیطرہ کے ان عظیم شہیدوں کے بارے میں یہی کہیں گے کہ اگرچہ ایک انسان ہونے کے ناطے ہمیں ان کی شہادت پر شدید دکھ پہنچا اور میں خود بھی ان کے فراق میں پورا دن گریہ کرتا رہا، لیکن ان مجاہدین کی شہادت ہم پر خداوند متعال کا عظیم کرم تھا۔ یہ لطف الہی تھا جس کے بعد ہم مزید طاقتور ہو کر ابھرے اور فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوگئی۔ 
 
سید حسن نصراللہ نے کہا قنیطرہ کی شہداء کی سب سے پہلی فتح یہ تھی کہ اسرائیل ان کے روز شہادت سے لے کر دو روز قبل حزب اللہ کے جواب تک شدید خوف اور وحشت کے عالم میں رہا اور ہر لحظہ حزب اللہ لبنان کے جواب کا منتظر رہا۔ اسے اس دوران یہی خوف لاحق تھا کہ حزب اللہ لبنان کا ردعمل کیا اور کس سطح پر ہوگا۔ یہ سب کچھ ان عظیم شہداء اور ان شہداء کی تربیت کرنے والے گھرانوں کی برکت سے ہی ممکن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ شبعا میں ہماری کارروائی اسرائیلی جارحیت کی مانند دن کی روشنی میں 11 سے 12 بجے کے درمیان انجام پائی۔ جس طرح انہوں نے ہماری دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا تھا، اسی طرح ہم نے بھی ان کی دو گاڑیوں کو ہی نشانہ بنایا۔ جس طرح انہوں نے ہمارے افراد کو میزائل سے نشانہ بنایا تھا، اسی طرح ہم نے انہیں میزائل (کورنٹ میزائل) سے نشانہ بنایا۔ البتہ ان کی بعض دوسری گاڑیوں کو بھی آگ لگ گئی جو ان کی قسمت تھی۔ ہماری یہ کارروائی ایسی حالت میں انجام پائی جب اسرائیل تقریباً دس دن سے ریڈ الرٹ پر تھا اور ہر متحرک چیز حتی کہ ایک چیونٹی پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا۔ لہذا اسرائیل کو ہماری طاقت کا اندازہ ہو جانا چاہئے اور میں اسے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہمیں مزید نہ آزمائے۔ 
 
آخر میں سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم میں مردانہ وار مقابلہ کرنے کی جرات نہیں اور میں ایک بار پھر اپنی اس بات پر تاکید کروں گا کہ "اسرائیل اوھن من بیت العنکبوت" یعنی اسرائیل مکڑی کے جال سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ انہوں نے شہداء کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے تمام مسلمان مجاہدین کی کامیابی کی آرزو کی اور سب کو اسلام کے حقیقی دشمن اسرائیل کے خلاف ڈٹ جانے کی تاکید کی۔ 
خبر کا کوڈ : 436204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش