0
Saturday 14 Feb 2015 12:52

چیپل ہل کا واقعہ امریکہ میں برسوں سے اسلام فوبیا کی ترویج کا نتیجہ ہے، ڈیلی آبزرور

چیپل ہل کا واقعہ امریکہ میں برسوں سے اسلام فوبیا کی ترویج کا نتیجہ ہے، ڈیلی آبزرور
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی اخبار "آبزرور" نے حال ہی میں شمالی کیرولینا ریاست کے علاقے چیپل ہل میں ایک دہشت گردانہ حملے میں تین مسلمان امریکی شہریوں کے قتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ملک میں برسوں سے جاری اسلام دشمن پروپیگنڈے کا نتیجہ قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام فوبیا پر مبنی پروپیگنڈے کو فوری طور پر بند کرے۔ یاد رہے منگل کے دن تین نوجوان امریکی مسلمان شہری جن کی عمر 23، 21، اور 19 سال تھی اور وہ اسٹوڈنٹ تھے، شمالی کیرولینا کی ریاست کے علاقے چیپل ہل میں یونیورسٹی کے نزدیک اپنے امریکی پڑوسی کی جانب سے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بن گئے۔ فائرنگ کے اس واقعے میں تینوں مسلمان امریکی شہری جاں بحق ہوگئے۔ قتل ہونے والے افراد میں سے ضیاء اور یسر نے دو ماہ قبل ہی آپس میں شادی کی تھی، جبکہ روزن یسر کی ہمشیرہ تھی جو اس سے ملنے کیلئے وہاں آئی تھی۔ 
 
حملہ آور کی شناخت "کریگ اسٹیفن ہکس" بتائی جاتی ہے جو 46 سالہ ملحد مرد ہے۔ وہ اس سے قبل بھی دو بار ضیاء اور یسر کے ساتھ جھگڑا کر چکا تھا اور انہیں اسلحہ دکھا کر قتل کی دھمکیاں بھی لگا چکا تھا۔ حملہ آور اس تہرے قتل کے بعد پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوچکا ہے۔ ڈیلی آبزرور کے مطابق کریگ ہکس کا فیس بک پیج دین مخالف مطالب سے بھرا پڑا ہے۔ اس کی جانب سے فیس بک پر لگائی گئی پوسٹس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مطالب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یسر اس سے قبل اس بات کا اظہار بھی کرچکی تھی کہ اس کا پڑوسی کریگ حجاب لینے کی وجہ سے اسے عجیب نظروں سے دیکھتا تھا۔ مقتولین کے ورثا اور دوستان یہ سمجھتے ہیں کہ قاتل کریگ ہکس کے اسلام مخالف خیالات ہی اس دہشت گردانہ اقدام کا باعث بنے ہیں اور اس نے نفرت میں آکر ان افراد کو قتل کیا ہے۔ 
 
ڈیلی آبزرور مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ کریگ ہیکس اس وحشیانہ قتل میں ملوث ہے لیکن وہ اکیلا قصوروار نہیں۔ اس مجرمانہ اقدام اور اس سے مشابہ نفرت کی بنیاد پر انجام پانے والے دوسرے دہشت گردانہ اقدامات جو اکثر مسلمانوں کے خلاف ہی انجام پاتے ہیں، کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں پھیلائے جانے والے اسلام مخالف زہریلی پروپیگنڈے کی روک تھام کیلئے کوئی قانونی چارہ جوئی انجام نہیں پاتی اور قانون کی جانب سے مسلمانوں کو شرانگیز اور شیطان ظاہر کرنے والی سرگرمیوں پر کوئی پکڑ نہیں۔ اخبار اسی طرح بعض امریکی سیاست دانوں کے ان بیانات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں اور امریکی شہریوں کے ذہن میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ گویا مسلمان امریکی معاشرے کا حصہ نہیں۔ 
 
روزنامہ آبزرور لکھتا ہے کہ ریپبلکن صدارتی امیدوار "بوبی جینڈل" کا نام بھی ایسے افراد کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دوران مسلمانوں کو باہر سے آئے ہوئے افراد قرار دیا اور کہا کہ مسلمانوں نے امریکہ پر "یلغار" کرکے اسے اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح انہوں نے مسلمان اکثریتی علاقوں میں دینی قوانین کے اجرا کو بھی ملک کیلئے خطرہ قرار دیا۔ 
 
ڈیلی آبزرور کے مطابق ریاست اوکلاہوما کے نمائندے "جان بنٹ" نے بھی اپنی ایک تقریر کے دوران اسلام مخالف بیانات دیتے ہوئے مسلمانوں کو ایک سرطانی غدہ قرار دیا اور کہا کہ ملک سے اس کی جڑیں ختم کر دینی چاہئیں۔ اخبار ان کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب انہوں نے یہ بات کہی تو ریاست اوکلاہوما میں ریپبلکن پارٹی کے سربراہ نے خوب تالیاں بجائیں اور ان کی تشویق کی۔ اسی طرح امریکی کانگریس میں ریاست جارجیا کے نئے نمائندے اور پادری "جوڈی ہائس" نے مذہب مخالف خاص طور پر اسلام مخالف بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کوئی حقیقی دین نہیں اور اس قابل نہیں کہ امریکی آئین کے مطابق اسے تحفظ فراہم کیا جائے۔ البتہ ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ حتی امریکی عدالت بھی ان کی مخالف ہے۔ 
 
معروف امریکی اخبار ایسی اور بہت سی مثالیں پیش کرتا ہے، جن میں بعض شخصیات کی طرف سے کسی ہچکچاہٹ اور خوف کے بغیر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا ذکر کیا گیا ہے اور اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ حالیہ وحشیانہ قتل کے اقدام میں ان سب افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ کالم نگار لکھتا ہے: "مجھے چیپل ہل میں تہرے قتل کی واردات سے کوئی تعجب نہیں ہوا کیونکہ ملک میں اسلام فوبیا پر مبنی منفی پروپیگنڈے اور ملک سے باہر شدت پسندانہ گروہوں کی حمایت کے بعد ہمیں ایسے اقدامات کی توقع تھی۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران جب میں اپنی بیٹیوں کو اسلامی سکول بھیجتا تھا تو مجھے خوف محسوس ہوتا تھا۔ لیکن اب بھی میں انہیں اسی سکول میں بھیجتا ہوں اور میں اپنے خوف کے سامنے جھکنا نہیں چاہتا۔ میں یہ بھی قبول نہیں کرسکتا کہ مسلمان ہمارے معاشرے میں کوئی مستقبل نہیں رکھتے کیونکہ ہم امریکہ میں طویل ماضی رکھتے ہیں۔ اگرچہ ضیاء، یسر اور روزن کی موت ہمیں ہمیشہ غم انگیز کرتی رہے گی، لیکن ان کی زندگی اور دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہمیں امیدوار رکھے گی۔" 
 
آخر میں مصنف لکھتا ہے کہ اگرچہ امریکہ میں مسلمانوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے، لیکن ہزاروں امریکی مسلمان جوان ملک بھر میں محتاج افراد کی خدمت، سماجی انصاف کی مہم میں حصہ لینے اور تخلیقی طریقہ کار کی ترویج کے ذریعے اپنی آواز اٹھاتے رہیں گے۔ مقتول اسٹوڈنٹس کے بارے میں عدالت کا اجراء صرف مجرم کو قرار واقعی سزا ملنا ہی نہیں بلکہ اسلام مخالف تعصب کے خلاف خاموشی کو توڑ کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ نفرت کہیں پرانے زخم کی صورت اختیار نہ کر لے اور مستقبل کی مسلمان نسلوں کیلئے اس معاشرے میں جینا ممکن ہوسکے۔ 
خبر کا کوڈ : 440225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش