0
Saturday 21 Feb 2015 17:30

لاہور میں پولیس ناکوں کا جال دہشتگردوں کیلئے تار عنکبوت ثابت ہو رہا ہے

لاہور میں پولیس ناکوں کا جال دہشتگردوں کیلئے تار عنکبوت ثابت ہو رہا ہے
لاہور سے ابوفجر کی رپورٹ

لاہور میں پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ دھماکہ نے لاہور سٹی پولیس کے سکیورٹی کے نام پر اربوں روپے کے اخراجات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور سٹی پولیس دہشت گردی اور دوسرے سنگین جرائم کے خاتمہ کے لئے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں کروڑوں روپے مالیت کے اشتہارات دیتی ہے، جن میں شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش مشکوک افراد اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع دیں، مگر حیران کن امر یہ ہے کہ شہری 15 پر کال کرتے ہیں تو بسا اوقات کال سننے کے لئے کوئی موجود ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح لاہور سٹی پولیس کے کئی ایس پیز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز شہریوں کی کال سننا ہی گوارا نہیں کرتے اور اگر کوئی بھولے بسرے سے کال اٹینڈ ہو بھی جائے تو جواب ملتا ہے کہ میں صاحب کا ٹیلیفون آپریٹر بول رہا ہوں، وہ میٹنگ میں ہیں، ابھی بات نہیں ہوسکتی۔ ایسے اشتہارات کے مثبت نتائج صرف اس وقت سامنے آتے ہیں جب 15 پر پہلی گھنٹی پر ہی کوئی کال سن لی جائے اور پولیس افسروں کو ہر کال سننے کا پابند کیا جائے۔

جس وقت پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے مین گیٹ کے قریب خودکش دھماکہ ہوا، ذرائع کے مطابق اس وقت پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ میں ایک ایسا ہیڈ کانسٹیبل بھی موجود تھا، جو چند سال قبل تھانہ گلبرگ میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے مقدمہ میں چالان ہوا تھا، تاہم بعد میں وہ عدالت سے بری ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک ریٹائرڈ ایس پی کا بیٹا ہونے کے ناطے اسے اپنی ملازمت کھوئے جانے کا ڈر خوف نہیں۔ عوامی حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا فول پروف سکیورٹی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے پولیس کے اندر مذہی انتہا پسندوں کی سکروٹنی کے لئے بیانات جاری کرنے کی بجائے کیا عملی اقدامات کئے؟ پولیس نے ہوٹل مالکان کو سختی سے ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ ہر مسافر کو ہوٹل میں کمرہ دینے کے تین گھنٹوں کے اندر اندر مقامی تھانے میں اطلاع دیں گے، مگر نولکھا کے علاقے میں پولیس لائن دھماکہ سے ایک روز قبل باجوڑ ایجنسی کے دو مشکوک پٹھانوں اول خان اور رحیم خان نے ایک ہوٹل میں رہائش کے لئے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس روز رات گئے تک پولیس کو ان کی خبر ہوئی اور نہ ہی جوڑوں کے شکار کی شوقین کسی پولیس پارٹی نے ہوٹل میں ایسے مشکوک افراد کی بُو سونگی۔

پولیس نے شہر میں ناکوں کا جال بن رکھا ہے، یہ دہشت گرد ان ناکوں سے کس طرح گزر جاتے ہیں کہ کوئی انہیں چیک کرنے والا نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ڈی آئی جی آپریشنز کی کتنی کمانڈ ہے۔ لاہور سٹی پولیس کے آپریشنز ونگ کی آج کے دور میں ڈیوٹی سکیورٹی، سکیورٹی اور سکیورٹی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ونگ شہر کے داخلی اور اندرونی راستوں پر دہشت گردوں سے نمٹنے میں بے بس نظر آ رہا ہے، جبکہ کرایہ داری آرڈیننس کے عملدرآمد میں نقائص باقی ہیں۔ پولیس کو اپنی صفوں میں چھپی کالی بھیڑوں کا بھی سخت احتساب کرنا ہوگا۔ پولیس لائن خودکش دھماکے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کو پولیس لائن میں موجود اس ’’شدت پسند‘‘ ہیڈ کانسٹیل کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے اور اس کے موبائل فون سے ڈیٹا بھی چیک کرنا چاہیے کہ اس نے تو کہیں باہر کھڑے خودکش بمبار کو اطلاع نہ دی ہو۔
خبر کا کوڈ : 442033
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش