0
Friday 27 Feb 2015 20:58

گوادر سمیت بلوچستان کے تمام پروجیکٹس بالادست طبقات کے مفادات کیلئے ہیں، سردار اختر مینگل

گوادر سمیت بلوچستان کے تمام پروجیکٹس بالادست طبقات کے مفادات کیلئے ہیں، سردار اختر مینگل
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ اگر بلوچستان کے مالک ہونے کے دعوؤں کی بجائے عملی طور پر مالک بننا ہے تو آج ہمیں اس ضمن میں فیصلے کرنا ہونگے۔ آج ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ بلوچستان میں کئے گئے عوامل کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے مگر مرکز کی لاٹھی بڑے دھماکوں کے ساتھ پڑتی ہے  لیکن ہم یا تو کانوں سے بہرے ہو چکے ہیں، یا پھر ہمیں اس لاٹھی کا احساس نہیں ہوتا البتہ مرکز نے ہمیشہ ہمیں احساس دلایا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں گوادر کی ڈویلپمنٹ پر جشن منائے گئے کہ یہاں لوگ ترقی یافتہ اورخوش حال ہونگے اور شاید ہوئے بھی ہوں۔ گوادر پورٹ اور گوادر ہاؤسنگ سکیم کے نام پر وزراء اور مشیر مستفید ہوئے ہونگے مگر آج تک گوادر کے باسیوں کی حالت کسی نے نہیں دیکھی۔ گوادر میں ترقی کے دعوؤں کے باوجود لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ نواب مگسی کے دور میں بنایا گیا واحد ڈیم وہاں موجود ہے۔ جو باران رحمت میں ہی عوام کو پانی سپلائی کرسکتا ہے۔ گوادر کی ترقی کے اعلان کے بعد یہاں شورش میں اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں پہلے بھی لوگ اپنے حقوق کے حصول کیلئے نعروں پارلیمنٹ اور جلسے جلوسوں کا سہارا لے رہے تھے اور کچھ ساتھیوں نے بندوق کا سہارا بھی لیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس دوران کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی مائیں بیوہ ہوئی۔ ہم روٹ پر بحث کررہے ہیں کہ کونسا روٹ ہونا چاہیئے۔ اس سے کس کو کتنا فائدہ ہونا چاہیئے۔ ہم اس رسی کی لمبائی اور خوبصورتی کو دیکھ رہے ہیں مگر جس کے گلے میں یہ رسی ڈالی جا رہی ہے، اس کی جانب توجہ نہیں دے رہے کہ اس رسی سے اسے کتنی تکلیف پہنچے گی۔

انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہم یہاں ایک چوراہے کی تعمیر کیلئے بھی مرکز کے محتاج ہیں۔ ہم یہاں بلوچستان کے مالک ہونے کی بات کرتے ہیں۔ درحقیقت نہ تو ہم پہلے مالک تھے اور نہ اب مالک ہے۔ تاہم آنے والے کل میں اگر ہمیں بلوچستان کا ملک بننا ہے تو ہمیں آج فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہم گوادر کاشغر روٹ کی حمایت یا مخالفت نہیں کریں گے۔ ہم محض اس روٹ کی حمایت کریں گے جس کے ذریعے اہل بلوچستان کو فائدہ حاصل ہو۔ اب سرسری مفادات کی خاطر بلوچستان کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پہلا منصوبہ نہیں جو مرکز کے ہاتھ میں ہے بلکہ اس سے قبل بھی مرکز نے ہمارے منصوبوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر ہم پر احسانات کئے ہیں۔ سوئی میں گیس دریافت ہونے کے بعد ملک کے کونے کونے تک پہنچی۔ مگر بلوچستان کے ایسے کتنے علاقے ہیں جوآج بھی اس سے محروم ہیں۔ گیس تو دور کی بات ہمیں گیس پائپ لائن کی چوکیداری کا بھی حق نہیں۔ مختلف پیکجز کی شکل میں مرکز کی جانب سے دی جانے والی خیرات کے باوجود مرکز ہمارا مقروض ہونے کے باوجود بھی ہم پراحسانات ٹھوکتے جا رہے ہیں۔ جس اسمبلی کے توسط سے جتنی بھی قراردادیں لائی گئی، انہیں صرف ردی کی ٹوکری میں جگہ ملی۔ گوادر کاشغر روٹ پر جہاں تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں وہیں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ روٹ محفوظ نہیں۔ ہمیں بتایا جائے کہ کیا یہاں سکول، بازار، مدارس، مساجد، امام بارگاہ، ائیربیس اور جی ایچ کیو محفوظ ہے۔ اگر نہیں تو کیا انہیں تالہ لگا دیا جائے۔ یہاں کبھی بھی ایران سے آنے والی ٹرانسمیشن لائن کو مزاحمت کار نہیں اڑاتے۔ صرف وہی ٹرانسمیشن لائن اڑائی جاتی ہے جو پنجاب سے آتی ہے۔ جب ٹرانسمیشن لائن تباہ ہو جاتی ہے تو بچ جانے والی بجلی کا فائدہ کس کو ہوتا ہے۔ دراصل یہاں سلطنت روم سے اختیارات حاصل کرنے کی جدوجہد ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اختیارات ہمیں کون دلائیگا۔

حکومت اور حکمران اپنی ضرورت کے مطابق ایک دن میں آئینی ترامیم لے آتے ہیں۔ 4 سالوں میں ہم 18ویں آئینی ترمیم سے لیکر 21ویں آئینی ترمیم تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر حکمران بلوچستان کے مسئلے پر اتنے ہی ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، تو پوری 22ویں آئینی ترمیم نہ سہی ساڑھے 21ویں آئینی ترمیم ہی لے آئے۔ ہم نیتوں کو گذشتہ 65سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آج ایوان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ساحل وسائل کا مکمل اختیار حاصل کرے تو ہم اس قرار داد کی حمایت کرینگے۔ ہم یہ اختیارات صوبائی حکومت کیلئے مانگ رہے ہیں پر ہم حکومت میں نہیں پھر بھی ہمیں پہلے بلوچستان کے سامنے سرخرو ہونا ہے تو اس قرارداد کے ذریعے ساحل وسائل پر مکمل اختیار حاصل کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 443739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش