0
Saturday 20 Nov 2010 11:50

رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر بھارت پریشان،ایران کے قائم مقام سفیر کی طلبی،شدید احتجاج

رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر بھارت پریشان،ایران کے قائم مقام سفیر کی طلبی،شدید احتجاج
نئی دہلی:اسلام ٹائمز-وقت نیوز کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر اپنی روایتی ڈھٹائی قائم رکھتے ہوئے ایران سے اپنے تعلقات کا بھی لحاظ نہیں رکھا،ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ عظمٰی  سید علی خامنہ ای کی جانب سے کشمیر کا موازنہ افغانستان اور فلسطین سے کرنے اور بھارت کو صہیونی حکومت قرار دینے پر بھارت کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے اور اس نے ایران سے شدید احتجاج کیا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے ایران کے قائم مقام سفیر،ناظم الامور رضا علائی کو طلب کیا اور ان سے کشمیر کے بارے میں تہران سے آنے والے بیان پر بھارت کی شدید مایوسی کا اظہار کیا۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے ایرانی حکام کو اپنی گہری مایوسی سے ہم نے انہیں بتا دیا کہ بقول ان کے ایران نے بھارت کے احساسات کو مدنظر نہیں رکھا۔ 
آیت اللہ عظمٰی سید علی خامنہ ای نے اپنے حج پیغام میں دنیا کے مسلمانوں سے کشمیریوں کی مدد کرنے کے لئے کہا تھا۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اسلامی امہ کی آج یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی قوم اور غزہ کے محصور عوام کی مدد کریں۔مسلمانوں کو افغانستان،پاکستان،عراق اور کشمیر کے عوام کی مدد کرنی چاہئے،جو امریکی جارحیت اور صہیونی حکومتوں کے جبر کی مزاحمت کر رہے ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری وائی کے سنہا نے ایرانی ناظم الامور کو طلب کیا،جہاں انہوں نے اس پر خاص طور پر افسوس ظاہر کیا کہ (بقول ان کے) سپریم لیڈر کے بیان میں بھارت کی سالمیت پر انگلی اٹھائی گئی ہے۔بھارتی اہلکار نے کہا یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ایران کے مذہبی رہنما نے کشمیر کے بارے میں اس طرح کے بیان دئیے ہیں۔ 
واضح رہے کہ بھارت بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں ایران میں حقوق انسانی کی صورتحال پر ایک قرارداد پر ووٹنگ میں غیر جانبدار رہا۔یہ قرارداد کینیڈا اور یورپی ممالک نے پیش کی تھی۔وزارت خارجہ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھارت کے لئے تشویش کا باعث ہے اور اقوام متحدہ میں ایران کا ساتھ نہ دینا اسی ناراضگی کا عکاس ہے۔اس سے 2003ء سے بھارت ایران کے خلاف اس طرح کی قرار دادوں کی مخالفت کرتا آیا ہے۔اکتوبر میں بھی وزارت خارجہ نے ایران سے اس وقت شدید احتجاج کیا تھا جب ایران کی وزارت خارجہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں احتجاجیوں کے خلاف بھارت کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی مذمت کی تھی۔تہران نے یہ مذمت اس وقت کی تھی جب امریکہ کے بعض مقامات پر (نعوذ باللہ) قرآن پاک کو جلائے جانے کی افواہ ایک ایرانی ٹی وی چینل پریس ٹی وی نے دکھا دی۔ 
تیرہ ستمبر کو احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز نے بیس احتجاجیوں کو ہلاک کیا تھا۔بعد میں بھارتی حکومت نے پریس ٹی وی پر پابندی عائد کر دی تھی۔بھارت اور ایران کے تعلقات ماضی میں کافی اچھے رہے ہیں،کشمیر کے حوالے سے تہران میں سخت جذبات ہونے کے باوجود ایران نے بھارت سے اپنے تععلقات میں کشمیر کو کبھی حائل نہیں ہونے دیا،لیکن حالیہ برسوں میں امریکہ اور اسرائیل سے بھارت کے تیزی سے بدلتے ہوئے تعلقات کے ساتھ ایران سے بھارت کے تعلقات میں سرد مہری آتی جا رہی ہے۔بھارت اب توانائی کے معاملے میں بھی ایران کے متبادل کی تلاش میں ہے۔اس سے قبل وہ ایک بار جوہری معاملے میں ایران کے خلاف ووٹ دے چکا ہے۔ 
اس مہینے کے اوائل میں دلی کے دورے کے دوران امریکہ کے صدر اوباما نے بھارتی پارلمینٹ سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر بھارت دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے برما اور ایران جیسے ممالک میں جمہوریت مخالف اقدامات کے خلاف بھی اپنی آواز اٹھانا ہو گی۔بھارت کے پالیسی ساز بھی اب رفتہ رفتہ یہ موقف اختیار کرنے لگے ہیں کہ ایران اور امریکہ کے درمیان انتخاب میں بلا شبہ امریکہ سے قربت ہی بھارت کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 44575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش