0
Saturday 21 Mar 2015 06:46

فرقہ بندی سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں، جماعت اسلامی

فرقہ بندی سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں، جماعت اسلامی
اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کے راستے میں سب سے بڑی رکاآٹ خود حکمران ہیں۔ قرارداد مقاصد میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ملک کا نظام اسلام ہوگا۔ ملک میں اصل اختیارات صدر اور وزیر اعظم کے پاس نہیں ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ اصل اختیارات کس کے پاس ہیں۔ لیکن ڈر کے مارے کوئی زبان نہیں کھولتا۔ ہمارے ملک میں نظام غیر اسلامی طریقے سے چلایا جارہا ہے۔ بجٹ سود کی بنیاد پر تیار ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا کارخانہ دار خود وزیر اعظم ہے۔ عدالت میں اللہ تعالیٰ کے قانون کو سپریم تسلیم نہیں کیا جاتا اور انگریز کے قانون کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے مظلوم ترین مسودہ آئین پاکستان ہے۔ سیرت النبی (ص) کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ ملک میں ان کی لائی ہوئی شریعت کو نافذ کردیا جائے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی میڈیا سیل کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد سلمان فارسی اڈیالہ روڈ راوالپنڈی میں پیغام مصطفی (ص) کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے جماعت اسلامی پنجاب شمالی کے نائب امیر مولانا عبدالجلیل نقشبندی، جمعیت اتحاد العلماء پنجاب کے صدر مولانا عثمان عثمانی، جماعت اسلامی راوالپنڈی کے امیر شمس الرحمن سواتی اور مفتی عبداللہ نے بھی خطاب کیا۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر دو بڑے انعامات ہیں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اللہ کے حبیب (ص) کی ذات ہے۔ اس وقت پوری امت صرف اور صرف اللہ کے دین کی بنیاد پر اکھٹی ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مسلمان جغرافیائی لحاظ سے بھی تقسیم در تقسیم ہوکر 57 ممالک میں بٹ گئے ہیں جبکہ یورپ کے لوگ متحد ہوکر یورپی یونین کی شکل اختیار کرگئے۔ وہاں ویزے کی کوئی پابندی نہیں، ان کی تجارت اور کرنسی ایک ہے لیکن اسلامی ایک نہیں ہے اور انتشار کا شکار ہے۔

مقررین نے کہا کہ ہماری فرقہ بندی سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ اسلامی شریعت نافذ نہیں کر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کس فرقے کا اسلام نافذ کریں۔ تمام مسالک کے علماء نے مل کر حکومت کے سامنے 22 نکات پیش کئے اور کہا کہ اس شریعت پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کی بجائے فوج کی شریعت نافذ کر دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ 1973ء کے دستور پر ہم سب کو اتفاق ہے۔ اس دستور میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت تسلیم کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں۔ شاہراہ دستور پر ایک ہی جگہ سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت قائم ہیں لیکن سپریم کورٹ میں اللہ کے قانون کے بجائے انگریز کے قانون پر فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں اور نہ ہی یہ سپریم قانون ہے۔ دستور میں کہا گیا تھا کہ پندرہ سالوں میں اردو زبان کو مکمل طور پر رائج کردیا جائے گا لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہمارے امتحانات، پارلیمنٹ، دفتری اور عدالت کی زبان انگریزی ہے۔ اب عوام خود فیصلہ کرلیں کہ آئین پاکستان کو کون نہیں مانتا اور کون اس کے نفاذ کے راستے میں رکاؤٹ ہے؟ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ اس وقت قوم اور پوری امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کا حل صرف اسلامی شریعت میں ہے۔ رسول اللہ (ص) کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بندوں کو انسان کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی غلامی میں دینا تھا۔آج ہمیں اسلامی شریعت سے روگردانی کی سزا مل رہی ہے۔ ہر جگہ مسلمان مشکلات، تباہی اور بربادی سے دوچار ہیں۔ اگر ملک میں سچے دل سے اسلامی نظام نافذ کیا جائے، نیک اور دیانتدار لوگوں کے ہاتھوں میں پاکستان کی قیادت دی جائے تو تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور پاکستان دنیا بھر کے ممالک کے لئے ایک مثال بن جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 448997
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش