0
Wednesday 6 May 2015 21:30

ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں جس میں بلوچستان نظرانداز ہو، سردار اختر مینگل

ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں جس میں بلوچستان نظرانداز ہو، سردار اختر مینگل
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری سے متعلق حکومتی بے بسی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نوکری اور اختیارات میں فرق ہوتا ہے۔ ایسے کسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ جس میں بلوچستان کے وجود کو نظرانداز کیا جا رہا ہو۔ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے دعویدار پہلے اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ وہ ناراض ہیں یا غدار۔ ہماری شنید میں آیا ہے کہ موجودہ وزیراعلٰی نے گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کے معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس اقتصادی راہداری سے اگر بلوچستان کو منہا کر دیا گیا تو اہل بلوچستان اس منصوبے کیخلاف یکجا ہوجائیں گے، کیونکہ گلا آگے سے کٹے یا پیچھے سے تکلیف برابر ہی ہوتی ہے۔ جس طرح گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔ اس میں گوادر کے مقامی لوگوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم راہداری کی بجائے اس بات کی آواز بلند کر رہے ہیں کہ اس منصوبے میں بلوچستان کو کتنا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ ملک کی تقدیر بدلنے والا گوادر منصوبہ کیا بلوچستان کے لوگوں کی تقدیر بدلے گا۔ اگر اس مرتبہ بھی بلوچستان کو نظرانداز کرنے کی روش برقرار رہی تو یہ قومی منصوبہ ہو یا کوئی بیرونی منصوبہ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کریں گے، کیونکہ ہمیں ایسا کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں جس میں بلوچستان میں بسنے والوں کے وجود کو نظرانداز کر دیا جائے۔ اقتصادی راہداری کی تبدیلی کی پریشانی بعد کا مسئلہ ہے اور یہ ان لوگوں کیلئے زیادہ پریشان کن ہے جو اس راہداری پر اپنی دکانیں، ٹھیلے، اسٹیل ملیں اور فیکٹریاں لگانا چاہتے ہیں۔ اگر گوادر کی تعمیر و ترقی کیلئے اتنے ہی ہلکان ہوئے جا رہے ہیں تو کوئی ہمیں یہ بتائے کہ کسی نے اب تک سرزمین کے مالک سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

جب تک اختیارات اصل مالک کو نہیں ملتے اس وقت تک ان منصوبوں کے ثمرات بلوچستان کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ اقتصادی راہداری سے متعلق قرارداریں پاس کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سرزمین کے مالک بلوچ کو اس ضمن میں تمام فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا، کیونکہ گوادر بلوچستان کا ہے اور گوادر کے بغیر اقتصادی راہداری بے معنی ہے۔ وفاق کا طرز عمل روز اول سے یہی رہا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جب اقتدار میں نہیں تھے تو بلوچستان کے مسائل کے حل کی بات کی جاتی تھی۔ مگر آج وہ عہد و پیما ہمیں وفا ہوتے نظر نہیں آرہے۔ محض عارضی ترقی فراہم کی جا رہی ہے۔ مگر ہم وہ ترقی ہرگز نہیں چاہتے جس کا اختیار حاصل نہ ہو۔ اگر حکمران واقعی بلوچستان کی ترقی کیلئے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں تو انہیں سب سے پہلے یہاں بداعتمادی کا خاتمہ کرتے ہوئے بلوچستان کے لوگوں کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ ان کے وسائل اور یہاں جاری منصوبوں پر ان کا مکمل اختیار ہے۔ ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کی محض باتیں کی جا رہی ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، صوبائی حکومت اب تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ جن سے وہ مذاکرات کے دعوے کر رہے ہیں وہ ناراض ہیں یا غدار۔ وزیراعلٰی بلوچستان انہیں ناراض کہتے ہیں تو انہی کی کابینہ کے وزیر داخلہ انہیں غدار کہتے ہیں۔ ان سے اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہوسکا اور میں سمجھتا ہوں کہ ناراضگی کی انتہاء تک پہنچنے والے کبھی بھی ان حکمرانوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں، اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
خبر کا کوڈ : 458915
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش