0
Saturday 30 May 2015 09:10

ایک لاکھ پاکستانی ’مشتبہ غیرملکی‘ قرار

ایک لاکھ پاکستانی ’مشتبہ غیرملکی‘ قرار
اسلام ٹائمز۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانیوں کو ان کی ’شہریت‘ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے یا تو ان پاکستانیوں کے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کو بلاک کر دیا ہے یا پھر انہیں ’’مشتبہ (غیرملکی)‘‘ قرار دیتے ہوئے نئے شناختی کارڈز کے اجراء سے انکار کر دیا ہے۔ نادرا نے شناختی کارڈز حامل افراد کے درمیان ’غیرملکیوں‘ کی شناخت کا کام تیز تر کر دیا ہے۔ نادرا کے ترجمان فائق علی چھاچھڑ نے میڈیا کو بتایا کہ ’’نادرا باریک بینی کے ساتھ ’’مشتبہ شناختی کارڈز‘‘ کی جانچ پڑتال کر رہا ہے، اور اب تک اس طرح کے تقریباً ایک لاکھ شناختی کارڈز کو بلاک کر دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’بلاک کیے گئے شناختی کارڈز کے حامل افراد پاکستانی نہیں ہیں، ان میں سے زیادہ تر افغان ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’نادرا کے پاس ’غلطی سے پاک‘ نظام موجود ہے، جس کے ذریعے مشکوک شناختی کارڈز بلاک کیے جا رہے ہیں۔‘‘تاہم نہ تو فائق علی چھاچھڑ نے اور نہ ہی نادرا کے چیئرمین عثمان مبین اس بات کی وضاحت کر سکے، کہ ان ’غیرملکیوں‘ نے آخر کس طرح شناختی کارڈز حاصل کر لیے تھے۔

نادرا کے ایک ذرائع نے بتایا ’’نادرا ایسے لوگوں کو شناختی کارڈز اجراء یا تجدید نہیں کر سکتا، جن کے پاس پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو۔ نادرا کے پاس موجود کسی ریکارڈ کے بغیر (مثلاً خاندان کا ریکارڈ) نادرا کس طرح غیرملکی کو شناختی کارڈ جاری کر سکتا ہے؟‘‘ ہر صوبے میں مشکوک شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال کے لیے وزارتِ داخلہ کی ہدایات پر حال ہی میں ایک مشترکہ توثیقی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’یہ کمیٹی مشکوک شناختی کارڈز کی جانچ پڑتال اور توثیق کرے گی، تاکہ کوئی غیرملکی یا غیرقانونی طور پر نقلِ مکانی کرنے والے جعلی دستاویزات کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈز حاصل کر کے بے جا مراعات سے لطف اندوز نہ ہو سکیں۔‘‘

ایسے لوگ جو اپنی ’پاکستانی شہریت‘ کھو چکے ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد نے اسی دوران میڈیا کو بتایا کہ وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ آخر کس طرح نادرا ان کے پاکستانی ہونے کے ثبوت دیکھنے کے بعد ان کے شناختی کارڈز کو بلاک کر سکتا ہے۔

ضلع چکوال کے علاقے چوا سیداں شاہ کے رہائشی دین محمد نے میڈیا کو بتایا کہ ’’میرا شناختی کارڈ (37202-4236548) جس کی معیاد 31 مئی 2017ء کو ختم ہونی تھی، بلاک کر دیا گیا ہے۔ نادرا آفس نے مجھے بتایا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں، اس لیے میرا شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا ہے۔ دین محمد کے بارہ بچے ہیں، اور ان میں سے جو 18 برس عمر کے ہو گئےہیں، ان کے شناختی کارڈز بھی اسی بنیاد پر مسترد کر دیے گئے ہیں۔

اسی طرح محمد عبداللہ (37202-3383403-7)، تاج بی بی (37202-2250924-5) اور عبدالستار (37202-2719212-3) کے شناختی کارڈز جن کی معیاد بالترتیب 2017ء، 2015ء اور 2017ء تک ختم ہونی تھی، کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔

ذرائع نے جب ان کے شناختی کارڈز کی حیثیت کے بارے میں نادرا سے معلومات حاصل کیں تو اس کی جانب سے بتایا گیا کہ ’’ان شناختی کارڈز کے حامل افراد پاکستانی نہیں ہیں، یہ غیرقوم کے لوگ ہیں۔‘‘ چکوال کے معصوم شاہ (37202-5042733-1) کو نادرا نے ’مشتبہ‘ قرار دے دیا ہے۔ معصوم شاہ نے کہا کہ انہوں نے نادرا کے عہدے دار کو پنجاب کے ضلع جھنگ میں اپنی خاندان کی بنیادوں کا ثبوت پیش کیا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے بتایا ’’نادرا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو ہمیں بتائے کہ آخر ہمارے شناختی کارڈز کیوں بلاک کیے گئے ہیں۔ اگر ہم پاکستانی نہیں تھے تو نادرا نے ہمیں شناختی کارڈ اور اس کے بعد کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کیوں جاری کیا؟ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ ہم پاکستانی تھے۔‘‘معصوم شاہ کے مطابق نادرا کے عہدے داروں کا خیال ہے کہ وہ اور ان کے خاندان کے لوگ افغانی ہیں۔

تمام متاثرہ لوگوں کی شکایت ہے کہ وہ قانونی شناختی کارڈ کے بغیر نہ تو کوئی جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروبار کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے شناختی کارڈز کے بغیر میٹرک یا دوسرے امتحانات میں شریک نہیں ہوسکتے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے یہ مسئلہ متعلقہ حکام کے سامنے پیش کرنے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نےپختونوں کو ’’افغان مہاجرین‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے شناختی کارڈز بلاک کرنے کے اقدام پر وزارت داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

محمود خان اچکزئی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں ریاست کس طرح ان لوگوں کی گرفتاری کا جواز پیش کرسکتی ہے، جن کے آباؤ اجداد نے افغانستان سے پاکستان نقلِ مکانی کی تھی؟ ایسے علاقے جہاں پختونوں کے آباؤاجداد برصغیر کی تقسیم وقت آباد ہوئے تھے، پولیس ان پختونوں کے شناختی کارڈز کو منسوخ کرکے ان کے شہری حقوق مسترد کرتے ہوئے بھتے کی رقم ادا کرنے کے لیے ناجائز دباؤ ڈال رہی ہے۔ ہمیں سیالکوٹ، اٹک، جھنگ اور یہاں تک کہ حیدرآباد میں رہنے والے پختونوں کی فون کالز موصول ہوئی ہیں، جو پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایت کر رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’میں ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں، جو 1900ء سے یہاں مقیم ہیں اور جن کے شناختی کارڈز نادرا نے منسوخ کر دیے ہیں۔ ہماری پارٹی کا مؤقف یہ نہیں ہے کہ ریاست افغان پناہ گزینوں کو شہریت دے۔ لیکن اگر پختونوں کے افغانی نسب کی بنیاد پر ان سے امتیازی سلوک کیا گیا تو ہم ان کے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘

محمود خان اچکزئی نے کہا ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ افغانستان کی نوجوان نسل میں سے نصف پاکستان میں بڑے ہوئے ہیں اور یہاں تعلیم حاصل کی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ افغان پناہ گزین یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے۔

اچکزئی نے کہا ’’کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کی تجدید کے عام ضروریات کے علاوہ تقسیم سے پہلے پاکستان میں آباد آباد پختونوں سے ان کے آباؤاجداد کی تفصیلات، ان کے نکاح نامے اور ان کی کاروباری سرگرمیوں کے ثبوت طلب کیے جاتے ہیں۔ یہ ناصرف امتیازی سلوک ہے، بلکہ اس سے پختونوں کے درمیان نفرت جنم لے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ نادرا کی جانب سے شروع کیے گئے قابلِ اعتراض اقدامات کے خلاف ان کی پارٹی ایک مہم شروع کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 463896
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش