0
Monday 20 Dec 2010 15:32

امریکی فوجی بوقت ضرورت پاکستانی علاقے کے اندر پاک فوج سے مل کر شدت پسندوں کیخلاف آپریشن کرتے ہیں،امریکہ

امریکی فوجی بوقت ضرورت پاکستانی علاقے کے اندر پاک فوج سے مل کر شدت پسندوں کیخلاف آپریشن کرتے ہیں،امریکہ
 واشنگٹن:اسلام ٹائمز-وقت نیوز کے مطابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ القاعدہ ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے اور خطے میں امریکہ کی موجودگی کا مقصد القاعدہ کو ایسی کوششوں سے روکنا ہے۔ایک امریکی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ خطے میں امریکی موجودگی کا مقصد القاعدہ کا صفایا کر کے اسے شکست دینا بھی ہے۔انتہا پسندوں کو پاکستان افغانستان سرحد پر محفوظ ٹھکانوں سے روکنے کے لئے پاکستان سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہو گی۔انہوں نے انٹرویو کے دوران افغانستان کے لئے امریکہ کی ایک سال کی رپورٹ کا بار بار ذکر کیا،جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو پیش رفت ہوئی ہے لیکن ابھی مزید وقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے دہشت گردوں کو روکنے کی کوششوں کی کئی مثالیں بتائیں،ان میں پچھلے سال کرسمس کے دوران امریکہ جانے والے طیارے سے ایک حملہ آور کی گرفتاری اور مئی میں ٹائمز سکوائر پر بم حملے کی کوشش ناکام بنانے کا خاص طور پر ذکر کیا۔
 امریکی نائب صدر نے کہا کہ امریکہ نے اپنے خلاف حملوں کی پلاننگ،عمل اور تربیت دینے والوں کو قابل ذکر حد تک نشانہ بنا کر کمزور کیا ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کامیاب ہوا ہے،بلکہ امریکہ اب پچھلے برسوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں آ گیا ہے۔انہوں نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کے بارے میں کہا کہ وہ انتہائی خطرناک اور ہائی ٹیک دہشت گرد ہیں۔انہوں نے بہت سے لوگوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔بائیڈن نے یہ بات زور دے کر کہی آندھی آئے یا طوفان امریکہ 2014ء تک افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلا لے گا۔انخلا کا یہ عمل جولائی 2011ء سے شروع ہو گا جو محض علامتی نہیں ہو گا۔ 
ادھر دفتر خارجہ کے ترجمان فلپ کراﺅلی نے کہا ہے کہ امریکی فوجی بوقت ضرورت پاکستانی علاقے کے اندر پاک فوج سے مل کر شدت پسندوں کیخلاف آپریشن کرتے ہیں۔پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا پاکستان کے ساتھ ہمارے مضبوط فوجی تعلقات ہیں،ہمارے درمیان فوجی تعاون کا سلسلہ جاری ہے کبھی کبھار ضرورت کی بنیاد پر امریکی فوج پاکستانی فورسز کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔وائٹ ہاﺅس نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں مدد کر رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ افغانستان کے معاملہ میں دونوں ممالک میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کیلئے دونوں ممالک مذاکرات کریں۔ترجمان نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں علاقائی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔امریکہ افغانستان کی تعمیر میں بھارتی کردار تسلیم کرتا ہے،تاہم اسکے ساتھ ہی وہ اس حوالے سے پاکستان،بھارت اور افغانستان میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے مذاکرات کا حامی ہے۔دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں پاکستانی فوج نے سب سے زیادہ جانی قربانیاں دی ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز نے مائیک مولن کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکی حکام نے پاکستانی فوج پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج نے گزشتہ دو برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔مولن نے سرحد پار سے حملوں کے بارے افغانیوں کو یقین دلایا کہ بہت زیادہ ممکن ہے پاکستان اپنی حدود میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔مولن کے ساتھ افغان رپورٹرز کی ملاقات میں یہ رائے سامنے لانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان میں عسکریت پسندی کے خاتمے میں پاکستان سب سے بڑی وجہ ہے۔مولن نے ان کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے اعلیٰ حکام کو واضح کر دیا ہے کہ ان کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف مزیدکارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو جڑ سے ختم کر دے۔انہوں نے پاکستانی فوج پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستانی فوج اپنے مقصد کو حاصل کرسکتی ہے۔واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے مولن نے کہا کہ پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنا ہی افغان جنگ کا اہم نکتہ ہے۔دشمن کو آبادی سے نکال دیا گیا ہے اس کے رہنماﺅں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی رہنماﺅں سے ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں وہ سرحد پر ان محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کریں اور وہ اس حوالے سے درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ 
وائٹ ہاﺅس کے پریس سیکرٹری رابرٹ گبز نے کہا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی اور تمام تصفیہ طلب معاملات کا پرامن مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کا خواہاں ہے۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہر طرح کی کشیدگی کم ہوتے دیکھنا چاہتا ہے اوبامہ انتظامیہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بہتری کیلئے انکی حوصلہ افزائی جاری رکھے گی۔دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال ایسا معاملہ ہے،جس پر صدر اوباما دونوں کے ساتھ بات چیت کرتے رہتے ہیں۔صدر اوباما نے دورہ بھارت میں وزیراعظم منموہن سنگھ سے ملاقات کے دوران یا پاکستانی حکام سے فون پر جب کبھی بات کی اور دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنازعہ کو زیربحث لاتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات نہ صرف دونوں ممالک کے اپنے بلکہ سب کے وسیع تر مفاد میں ہیں،تاہم انہوں نے ایک بار پھر اسکی وضاحت کی کہ بات چیت کی رفتار اور اس کے پیمانے کا تعین اسلام آباد اور نئی دہلی پر منحصر ہے۔
خبر کا کوڈ : 47413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش