0
Saturday 25 Jul 2015 10:12

طالبان سے مذاکرات کا دوسرا دور 31 جولائی کو شروع ہو گا

طالبان سے مذاکرات کا دوسرا دور 31 جولائی کو شروع ہو گا
اسلام ٹائمز۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آئندہ ہفتے شروع ہو گا جس کے دوران مفاہمتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ مذاکرات جمعے کو یعنی 31 جولائی کو شروع ہوں گے جس میں پاکستان، امریکا اور چین کے حکام بھی شرکت کریں گے۔ مذاکرات کے مقام کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک پاکستانی افسر نے میڈیا کو بتایا کہ مذاکرات کے دوسرے دور کا انعقاد پاکستان میں ہو گا۔ تاہم افغان احکام کابل میں میڈیا کو بتا رہے ہیں کہ چین ان مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس بار مذاکرات کے ایجنڈے میں جنگ بندی اور دیگر اعتماد سازی کے امور شامل ہوں گے۔ ایک حالیہ بیان میں صدر اشرف غنی نے طالبان نمائندوں سے درخواست کی کہ وہ آئندہ ملاقات میں اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کریں۔ مری میں طالبان وفد نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا اور اقوام متحدہ میں ان کے رہنماؤں کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے افغان جیلوں میں طالبان قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک کی بھی مانگ کی تھی۔

مذاکرات کا پہلا دور مثبت انداز میں اختتام پذیر ہوا تھا جہاں دونوں اطراف نے اعتماد سازی کے اقدامات بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ مذاکرات کے دوران ہونے والی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے طالبان سربراہ ملا عمر نے عید کے موقع پر اپنے پیغام میں ان مذاکرات کو 'جائز' قرار دیا تھا۔

ادھر صدر اشرف غنی نے بھی اپنے عید کے پیغام میں ملا عمر کی مذاکرات کی حمایت کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ہی جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ طالبان کی جانب سے حملوں کو مختصر طور پر روکنے کو بھی تجزیہ کار مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان دونوں ہی ان دنوں ملاقات کے لیے اپنے وفود کو ختمی شکل دے رہے ہیں۔ مذاکرات کے پہلے دور کے دوران طالبان وفد کی سربراہی طالبان دور کے اٹارنی جنرل ملا عباس درانی کر رہے تھے جبکہ افغان حکومت کی نمائندگی ڈپٹی وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کر رہے تھے جو کہ صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹیو عبد اللہ عبداللہ کے مشیروں میں سے ایک ہیں۔ اس مرتبہ کے مذاکرات کے وفود کے لیے چھوٹی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ طالبان کے وفد میں ان کے دوحہ کے سیاسی دفتر کا کوئی نمائندہ شامل ہوسکتا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے سول سوسائٹی اور خواتین کی نمائندگی کرنے والے اراکین شامل ہو سکتے ہیں۔

ان مذاکرات کے آغاز کا کریڈٹ پاکستانی فوج کا دیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے جمعرات کو راولپنڈی کے اپنے دورے کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے پر تعریف کی۔ جنرل راحیل نے فروری میں صدر غنی تک طالبان کا پیغام پہنچایا تھا کہ وہ مفاہمتی عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کابل سے معلومات لیک ہونے کے باعث یہ عمل کئی ماہ موخر ہو گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 475755
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش