0
Monday 14 Sep 2015 11:08

پنجاب حکومت سرتاپا کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے، عوامی تحریک کا حقائق نامہ

پنجاب حکومت سرتاپا کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے، عوامی تحریک کا حقائق نامہ
اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک پنجاب نے شہباز حکومت کی مالی بدعنوانیوں اور بجٹ رقوم کے وسیع پیمانے پر قواعد و ضوابط سے ہٹ کر استعمال پر ’’کرپشن اور بدعنوانی کے 7 سال‘‘ کے عنوان سے حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 7 سالوں میں 10 منصوبوں میں اربوں روپے خوردبرد کئے گئے اور پنجاب حکومت مالی بے ضابطگیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔ متعدد منصوبوں پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایڈوائزر نے تنقید کی، جسے وزیراعظم کا ایڈاوئزر بنا کا خاموش کروا دیا گیا۔ پنجاب میں اپوزیشن جماعت کے استعفوں کے باعث پنجاب حکومت نے دل کھول کر کرپشن کی اور بے کار منصوبے دینے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ایک صوبائی وزیر کی رشوت لیتے ہوئے ویڈیو پوری قوم نے دیکھی، مگر وزیراعلٰی نے انکوائری کی بجائے وزیر کی سرپرستی کی۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا غیر قانونی پلازہ پکڑا گیا، وزیراعلٰی نے انکوائری کا حکم دیا، آج تک اس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی، البتہ تنقید سے بچنے اور اپنے وزیر کو بچانے کیلئے پنجاب حکومت نے غیر قانونی پلازے گرانے کی مہم ہی روک دی۔ جنوبی پنجاب میں بیراجز کی تعمیر و مرمت کے نام پر اربوں روپے کی لوٹ مار ہوئی، جس کی نشاندہی 2010ء میں جسٹس منصور علی شاہ کی سرپرستی میں قائم ہونیوالے کمیشن کی رپورٹ میں بھی ہوئی، مگر وزیراعلٰی پنجاب نے ذمہ دار سیکرٹری کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اسے ترقی دیدی۔ حقائق نامہ مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نوازگنڈا پور، چیف کوآرڈینیٹر محمد سعید راجپوت، صوبائی صدر پنجاب بشارت جسپال، صوبائی صدر جنوبی پنجاب فیاض وڑائچ نے عوامی تحریک کے ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس میں پیش کیا۔

حقائق نامہ کے مطابق پنجاب حکومت کے سستی روٹی پراجیکٹ میں 30 ارب روپے کا غبن ہوا، اس پر آڈٹ پیرے بھی بنے مگر پنجاب حکومت 4 سال کے بعد بھی سستی روٹی پراجیکٹ کا ریکارڈ پیش نہیں کرسکی، آج سستی روٹی اور سستے تنور کہیں نظر نہیں آتے اور نہ ہی وزیراعلٰی پنجاب ان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہوں نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ 2 روپے میں روٹی نہ بیچی تو میرا نام شہباز شریف نہیں، 2011ء میں 14 ارب روپے کی مالیت سے مستحق خاندانوں کیلئے فوڈ سپورٹ پروگرام کا اجراء کیا گیا، مگر رقوم حقداروں تک نہ پہنچ سکیں، راستے میں ہی خوردبرد کر لی گئیں۔ پنجاب حکومت نے وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں سامنے آنے پر پروگرام کو روک دیا، مگر آج تک ذمہ داروں کو سزا ملی اور نہ ہی قومی رقوم ریکور ہوئیں۔ حقائق نامہ کے مطابق مکینیکل تنوروں کی مد میں 3 ارب روپے خورودبرد کئے گئے، آج تک اس کا آڈٹ کروایا گیا اور نہ ہی اس پروجیکٹ کا کہیں کوئی ریکارڈ دستیاب اور نہ ہی یہ مکینیکل تنور کہیں نظر آتے ہیں۔ دانش سکولوں کے نام پر خزانے سے 15 ارب روپے سے زائد کی رقوم نکلوائی گئیں، مگر دانش سکولوں کا یہ منصوبہ فلاپ اور بھاری رقوم ضائع ہو گئیں۔ اب وزیراعلٰی پنجاب بھولے سے بھی دانش سکولوں کا نام نہیں لیتے، یہ رقوم خورودبرد کر لی گئیں اور دکھاوے کیلئے چند دانش سکول تعمیر کئے گئے ہیں۔

حقائق نامہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے یوتھ فیسٹیول کے نام پر ڈیڑھ ارب روپے خوردبرد کئے اور جعلی عالمی ریکارڈ قائم کئے۔ یوتھ فیسٹیول کا کہیں ریکارڈ دستیاب نہیں اور نہ ہی اس کا آڈٹ ہونے دیا جا رہا ہے۔ حقائق نامہ کے مطابق 2009ء سے لیکر تاحال لوکل گورنمنٹ کو ملنے والے 150 ارب روپے کا آڈٹ نہیں ہوا۔ اس حوالے سے آڈیٹر جنرل پاکستان نے آڈٹ کروانے کیلئے تحریری طور پر آگاہ کیا۔ لوکل گورنمنٹ کے ادارے گذشتہ 7سالوں میں کرپشن کی منڈی میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ پنجاب انٹرن شپ پروگرام میں 13 ہزار نوجوانوں کے نام پر معاوضے نکلوا لئے گئے، مگر ادا نہیں ہوئے۔ نندی پور پروجیکٹ میں تاخیر اور نااہلی کی ذمہ داری قبول کی گئی، مگر ذمہ داروں کو ابھی تک سزا نہیں ملی۔ قائداعظم سولر پروجیکٹ کے حوالے سے وزیراعلٰی پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ یہ 100 میگاواٹ کا منصوبہ ہے جبکہ گذشتہ روز پریس کانفرنس کرکے انہوں نے بتایا 18 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ انہوں نے بتایا سولر منصوبہ 13 ارب روپے مالیت کا ہے جبکہ اس منصوبہ کیلئے پنجاب بینک سے ڈیڑھ سو ارب روپے کا قرضہ لیا گیا۔ حقائق نامہ میں بتایا گیا کہ وزیراعلٰی پنجاب نے تعلیم، صحت، ماحولیات کے فنڈز، میٹرو بس منصوبے میں خرچ کئے، نیب نے میٹرو بس کا ریکارڈ طلب کیا مگر اس کے بعد نیب اب تک خاموش ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں نے کہا کہ پنجاب حکومت سرتاپا کرپشن میں لتھڑی ہوئی ہے۔ مذکورہ حقائق نامہ کے ذریعے تحقیقاتی اداروں کو ’’فوڈ فار تھاٹ‘‘ دے رہے ہیں۔ جب ان منصوبوں پر تحقیقات کا آغاز ہوگا تو بڑے بڑے مزید سکینڈل سامنے آئینگے۔ ایل ڈی اے کا ایک سابق ڈی جی اور وزیراعظم ہاؤس کا ایک کار خاص افسر دھر لیا جائے تو شریف برادران کی ساری کرپشن پکڑی جائے گی۔ پنجاب حکومت کی مالی بدعنوانیوں کو پکڑنے کیلئے نیب نہیں فرانزک لیبارٹریوں کی ضرورت ہے اور شریف برادران کے احتساب کا آغاز سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس سے ہونا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 485513
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش