0
Sunday 2 Jan 2011 13:36

بے نظیر بھٹو قتل کیس،4 اہم شخصیات سے تفتیش کا فیصلہ

بینظیر کے قتل کی ایک اور کڑی ڈرون حملوں کی نذر ہو گئی
بے نظیر بھٹو قتل کیس،4 اہم شخصیات سے تفتیش کا فیصلہ
 اسلام آباد:اسلام ٹائمز-اے آر وائی نیوز کے مطابق بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے چار اہم شخصیات سے تفتیش کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق جن افراد سے تفتیش کی جائے گی ان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف ،سابق وزیر داخلہ حامد نواز،سابق سیکریٹری داخلہ کمال شاہ اور آئی بی کے سابق سربراہ اعجاز شاہ شامل ہیں۔ ٹیم اس کے علاوہ شہادت کے وقت بے نظیر بھٹو کی گاڑی میں موجود ناہید خان اور صفدر عباسی سے بھی تفتیش کرے گی۔
ادھر وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا، مقدمہ کی سماعت میں متعلقہ کسی بھی فریق کو رعایت حاصل نہیں ہوتی۔سندھ اسمبلی میں لاء افسران سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ عوامی مفاد میں مشکل فیصلے کرنے پڑے تو کریں گے، ان فیصلوں سے متعدد وزارتیں ختم بھی ہو سکتی ہیں۔ بابر اعوان نے کہا کہ ابھی دو سال باقی ہیں، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف پارلیمنٹ میں آ کر اپنے اعتراضات دور کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب کا معتبر ادارہ قائم کئے بغیر احتساب بیورو کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
بینظیر کے قتل کی ایک اور کڑی ڈرون حملوں کی نذر ہو گئی
اسلام آباد:2010ء کے اختتام کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق ایک اور کڑی بھی ڈوب گئی کیونکہ گزشتہ سال مئی میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں بے نظیر کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والا القاعدہ کا اہم رہنما مارا گیا تھا۔ ”2010ء ڈرونز کے ذریعے قتل کا سال“ کے نام سے مرکز برائے مانیٹرنگ تنازعات کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق القاعدہ قیادت میں نمبر 3 اور مالیاتی اور آپریشنل امور کے انچارج مصطفی ابو یزید المعروف شیخ سعید المصری 22 مئی 2010ء شمالی وزیرستان میں اپنی بیوی،3 بیٹیوں اور ایک نواسی سمیت مارا گیا“۔ رپورٹ کے مطابق ”دسمبر 2009ء میں المصری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ انہوں نے Adnkronos International کو بتایا کہ ”ہم نے انتہائی اہم امریکی اثاثے کو ختم کر دیا۔اس نے مجاہدین کو شکست دینے کا عہد کیا تھا۔ایشیا ٹائمز آن لائن نے بھی خبر دی تھی کہ المصری نے فون کے ذریعے ذمہ داری قبول کی تھی“۔ 
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ مقامی اور عالمی میڈیا میں شہری ہلاکتوں کے دو واقعات کا ذکر تھا جبکہ حقیقت میں یہ تعداد بہت زیادہ تھی لیکن میڈیا کو خبریں بے نام امریکی اور پاکستانی خفیہ حکام کے ذریعے پہنچتی ہیں اور براہ راست کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ المصری کی جگہ لینے والے القاعدہ کے مصری کمانڈر شیخ فتح جو المصری کی ہلاکت کے بعد افغانستان اور پاکستان کیلئے القاعدہ کے آپریشنز چیف مقرر ہوئے،وہ بھی 28 ستمبر 2010ء کو ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ مرکز برائے مانیٹرنگ تنازعات ایک آزاد ریسرچ سنٹر ہے جس کی توجہ کا مرکز جنوبی ایشیا میں ریاست مخالف عسکریت پسندی اور اس سے متعلقہ سرگرمیاں ہیں۔ اس مرکز نے پاکستانی علاقے میں ڈرون حملوں پر سالانہ (2010ء) رپورٹ تیار کی ہے۔ رپورٹ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس سے حاصل کردہ معلومات پر مبنی ہے۔ 
رپورٹ کے مطابق پاکستانی نقطہ نظر سے سب سے اہم ہلاکت قاری حسین محسود کی تھی جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ہلاکت کی تردید کی ہے۔ تاہم ایشیا ٹائمز آن لائن نے تصدیق کی ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2010ء کو ہونے والے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2010ء میں سی آئی اے نے 132 ڈرون حملے کئے جو گزشتہ 6 برس (2004تا 2009ء) میں مجموعی طور پر کئے گئے (یعنی 96 حملے) حملوں سے زیادہ تھے۔ 2010ء میں 938 افراد مارے گئے۔ ستمبر 2010ء ہلاکت خیز مہینہ تھا جس میں 23 حملوں میں 147 لوگ مارے گئے۔ 17 دسمبر سال کا خون آشام دن تھا جس روز خیبر ایجنسی میں 54 لوگ مارے گئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 48867
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش