0
Tuesday 24 Nov 2015 18:00

ہمارا جٹ شام کی فضائی حدود میں تھا، دہشتگردوں کے ساتھیوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، ولادیمیر پیوٹن

ہمارا جٹ شام کی فضائی حدود میں تھا، دہشتگردوں کے ساتھیوں نے پیٹھ میں خنجر گھونپا، ولادیمیر پیوٹن
اسلام ٹائمز۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے شامی سرحد پر ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ گرانے کو "پیٹھ میں خنجر گھونپنے" سے تعبیر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ واقعہ کے ماسکو-انقرہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ ترکی نے منگل کو فضائی حدود کی مبینہ خلاف ورزی پر شامی سرحد کے قریب روس کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا۔ روسی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں ایک لڑاکا طیارہ SU-24 شام کی سرحد پر گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ جہاز کے تباہ ہونے سے قبل پائلٹ باحفاظت اس سے نکل چکے تھے۔ قطری ٹی وی الجزیرہ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ ترک حکام نے پائلٹ کو حراست میں لے لیا۔ روسی خبر رساں ادارے آر ٹی نے ترک فوج کے حوالے سے بتایا کہ طیارے کو نشانہ بنانے سے قبل 10 بار وارننگ دی گئی۔ 5 منٹ تک ہر 30 سیکنڈ بعد وارننگ کے باوجود فضائی خلاف ورزی پر دو F-16 طیاروں نے اسے نشانہ بنایا۔

ولادیمیر پیوٹن نے آج اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات کے دوران واقعہ پر ردعمل میں مزید کہا روسی کی کمر میں یہ خنجر دہشت گردوں کے ساتھیوں نے گھونپا۔ پیوٹن مصر ہیں کہ طیارہ شام کے علاقے میں پرواز کر رہا تھا۔ انہوں نے واقعہ کا محتاط تجزیہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ترک طیارے کے حملے میں گرنے والا روسی جٹ شامی علاقے پر پرواز کر رہا تھا اور وہ کسی صورت ترکی کیلئے خطرہ نہیں تھا۔ ایک ترک ایف-16 نے فضا سے فضا مار کرنے والے میزائل کی مدد سے ہمارے جٹ کو شامی خطے میں گرایا۔ روسی طیارہ ترک سرحد سے چار کلو میٹر دور شام میں گر کر تباہ ہوا۔ دوسری جانب ترک وزیراعظم احمد داؤد اوگلو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اپنی سرحدوں کی کسی خلاف ورزی پر کارروائی ان کی ذمہ داری ہے۔ سب کو پتہ ہونا چاہیئے کہ کسی بھی جانب سے فضائی یا زمینی سرحدوں کی خلاف ورزی پر کوئی بھی قدم اٹھانا ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی حق ہے۔

ادھر امریکی دفاعی حکام نے واضح کیا ہے کہ اس واقعہ میں وہ ہرگز ملوث نہیں۔ امریکی دفاعی عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ہمارے ترک اتحادیوں نے مطلع کیا کہ منگل کو سرحدی خلاف ورزی پر انہوں نے ایک روسی فوجی طیارہ مار گرایا۔ پنٹاگون حکام گذشتہ مہینے روسی جٹ طیاروں کی جانب سے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزیوں پر مبنی حکمت عملی کی مذمت کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی اس سے قبل مارچ 2014ء میں بھی شام کے ایک طیارے کو سرحدی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر تباہ کرچکا ہے۔ خیال رہے کہ شام اور عراق میں وسیع رقبے پر شدت تنظیم داعش نے قبضہ کرکے جون 2014ء میں خود ساختہ "دولۃاسلامیۃ" کے قیام اور ابوبکر البغدادی کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا۔ گذشتہ برس امریکہ اور مغربی ممالک نے پہلے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والے باغیوں کی مدد کی، بعد ازاں داعش کے شام اور عراق کے وسیع حصے پر قبضے کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا۔ البتہ امریکی اتحاد کی نمائشی کارروائیوں کی وجہ سے ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود داعش کے شام اور عراق کے علاقوں پر ہونے والے قبضے کو ختم نہیں کیا جا سکا۔

دو ماہ قبل روس بھی اس جنگ میں شامل ہوا اور اس کے جنگی جہازوں نے بشار الاسد کے خلاف بغاوت کرنے والے باغی گروہوں اور داعش  کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ 10 روز قبل یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شام میں جنگ بندی اور سیاسی اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں امریکہ اور روس سمیت 19 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ روس کی تجویز پر ہی عبوری حکومت کے قیام اور انتخابات پر اتفاق کیا گیا، اجلاس میں شام میں 6 ماہ کے دوران عبوری حکومت قائم اور 18 ماہ میں انتخابات کرانے پر اتفاق ہوا۔ خیال رہے کہ 10 روز قبل ہی فرانس کے دارالحکومت پیرس میں حملوں میں 129 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کہ ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی جس کے بعد فرانس نے شام میں فضائی کارروائی تیز کر دی ہے اور اپنا بحری بیڑہ بھی شامل بھجوا دیا ہے جس سے داعش کے خلاف فرانس کے 38 طیارے حملے کر رہے ہیں۔

دیگر ذرائع کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے شامی سرحد پر ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ مارگرانے کو "پیٹھ میں خنجر گھونپنے" کے مترادف قرار دیا ہے۔ روس کے شہر سوچی میں منگل کے روز شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات کے دوران واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے کہا "روسی کی کمر میں یہ خنجر دہشت گردوں کے ساتھیوں نے گھونپا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں شک نہیں کہ اس واقعے کے ماسکو- انقرہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر ولادیمیر پوتن نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ترک فضائیہ کے طیارے کے حملے میں گرنے والا روسی طیارہ شامی علاقے پر پرواز کر رہا تھا اور وہ کسی صورت میں ترکی کیلئے خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ روسی طیارے کو اس وقت مار گرایا گیا جب وہ ترک سرحد سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ روس کے صدر کا کہنا تھا کہ طیارہ مار گرانے کے بعد ترکی کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے ہم نے ترکی کا طیارہ مار گرایا ہو۔ انہوں نے کہا کہ طیارہ مار گرانے کے بعد ترکی نے روس سے رابطے کے بجائے نیٹو میں اپنے اتحادیوں سے رابطہ کیا اور انہیں واقعے کی تفصیلات بتائیں، گویا ہم نے اس کے طیارے پر فائرنگ کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ترک فضائیہ نے منگل کے روز، شام کے سرحدی شہر لاذقیہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے والے ایک روسی جیٹ طیارے کو مار گرایا تھا۔ ترک حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ روسی طیارے نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی اور اسے وارننگ دینے کے بعد مار گرایا گیا۔ ترک وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم احمد داؤد اغلو نے روسی جنگی طیارہ مار گرانے کے بعد وزیر خارجہ اور مسلح افواج کے سربراہ سے ہنگامی ملاقات بھی کی ہے۔ ترکی نے انقرہ میں روسی سفارت خانے کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب بھی کیا ہے۔ ادھر روسی وزارت دفاع کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مار گرایا جانے والا طیارہ شام کی حدود میں پرواز کر رہا تھا اور اس نے ترکی کی فضائی حدود کی خلاف نہیں کی تھی۔
خبر کا کوڈ : 500063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش