0
Tuesday 24 Nov 2015 19:44

بلوچستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا جائے، براہمداغ بگٹی

بلوچستان میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا جائے، براہمداغ بگٹی
اسلام ٹائمز۔ بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کا کہنا ہے کہ بندوق کی نوک پر کسی صورت مذاکرات نہیں کرینگے۔ بلوچستان میں آپریشن میں بلوچوں کے قتل میں ملوث جرنیل اور سیاستدانوں کو سزا دی جائے۔ پاکستان نہیں آ رہا، کون کس کے ساتھ ہے بلوچستان میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی زیرنگرانی ریفرنڈم کیا جائے۔ خود پتہ چل جائے گا کہ بلوچ قوم کیا چاہتی ہے۔ 50 سالوں تک بلوچوں نے کوشش کی کہ پاکستان کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے رہ سکیں۔ مگر ہمیشہ بلوچوں پر آپریشن کیا گیا اور نئے جرنیل دوسرے جرنیل کو اس کا ذمہ دار ٹہرایا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ بلوچستان کے قومی جرگہ میں شریک لوگ صرف چائے پینے یہاں آئینگے۔ اصل طاقت پاکستان کے فوج کے پاس ہے۔ اگر مذاکرات بھی ہوئے تو انہی سے ہونگے۔ پھر ہم اپنے ایجنڈے رکھیں گے۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر جنرل قادر سے صرف ملاقات ہوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ آج پورے بلوچستان میں بلوچ آپریشن کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ صرف کوہلو اور ڈیرہ بگٹی میں مسلح تنظیمیں نہیں ہیں، مکران سب سے بڑا علاقہ ہے۔ وہاں بھی لوگ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ بلوچ صرف مزاحمت اپنی دفاع میں کررہے ہیں۔ ہم پر 50 سالوں سے ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کوشش کی بلوچستان مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے مگر ہمیشہ کی طرح طاقت کا استعمال کرکے سیاسی طریقے سے بلوچستان میں مذاکرات نہیں کیے گئے۔ میرے دادا نواب اکبر خان بگٹی نے بھی مذاکرات کیے، مگر اسے قتل کردیا گیا۔ اگر بھارت سمیت کوئی بھی ہمیں مدد کرے گا ہم ضرور لینگے۔ جس طرح پاکستان دنیا سے امداد لیتا ہے۔ ہم تو اپنی دفاع میں مدد کی بات کرتے ہیں، کسی پر جبر کرنے کیلئے نہیں۔ ہمیں "را" کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایوب خان نے فاطمہ علی جناح کو "را" کا ایجنٹ کہا تھا۔ پاکستان کے حب الوطن خود ہی اس کے آئین کو نہیں مانتے, جبکہ بلوچستان تو ایک الگ ریاست تھا اور ہمارے بزرگوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ مگر اس کے نتیجے میں ہمارے لوگوں غدار کہا گیا اور بدترین آپریشن کیا گیا۔

براہمداغ بگٹی کا مزید کہنا تھا کہ بولان میں اب بھی آپریشن جاری ہے۔ جہاں سے خواتین تک کو اغواء کیا گیا ہے۔ مگر اس پر کسی نے کوئی لب کشائی نہیں کی۔ جینوا آکر میرا پاسپورٹ چیک کیا جائے اور میں خود سوئزرلینڈ کی حکومت سے درخواست کرونگا کہ میرا پاسپورٹ ان کو دکھایا جائے کہ میں کس پاسپورٹ پر سفر کرتا ہوں، سوئزر لینڈ آیا ہوں۔ خان آف قلات یا کوئی بھی مذاکرات کرے مجھے کوئی انکار نہیں۔ مگر میں بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے مطابق مذاکرات کرونگا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بلوچوں کی اکثریت اب پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ میں تو پھر بھی مذاکرات کی بات کرتا ہوں، مگر ایسے بلوچ نمائندے بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے بالکل ہی تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ ماضی سب کے سامنے ہے۔ اس لیے پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ اب بھی پاکستان میں تمام اختیارات آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور کورکمانڈرز کے پاس ہیں۔ سیاستدانوں کے ہاتھوں کچھ نہیں وہ صرف انہیں خوش کرنے کیلئے کام کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان میں جدوجہد کررہے ہیں اور اس کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں۔ بلوچستان میں صرف نام کے ترقیاتی منصوبے ہیں فائدہ صرف پنجاب کو ملتا ہے۔ اب بھی چین جو سرمایہ کاری کررہی ہے اس میں کسی بھی بلوچ سے پوچھا نہیں گیا۔ تمام معاہدے اسلام آباد میں ہورہے ہیں، پھر بلوچوں کو اس سے کیا فائدہ ملے گا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں پورے بلوچستان کی نمائندگی کرتا ہوں۔ میری اپنی سیاسی جماعت ہے اور وہاں سیاسی جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر فوج کو بلوچستان سے نکالا جائے تو بلوچ قوم کی اکثریت کا فیصلہ سب کے سامنے آئے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ بندوق کی نوق پر کسی صورت مذاکرات نہیں کرینگے۔ بلوچستان میں آپریشن میں بلوچوں کے قتل میں ملوث جرنیل اور سیاستدانوں کو سزا دی جائے۔ بیرون ملک میں رہ بہترین طریقے سے جدوجہد کرسکتا ہوں۔

انکا مزید کہنا تھا کہ کون کس کے ساتھ ہے، بلوچستان میں اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی زیرنگرانی ریفرنڈم کیا جائے۔ خود پتہ چل جائے گا کہ بلوچ قوم کیا چاہتی ہے۔ میرے مذاکرات کی باتوں کا غلط مطلب نکالا جاتا ہے۔ جس طرز کا میں مذاکرات چاہتا ہوں اُن تمام ایجنڈوں کو فوجی آفیسران کے سامنے رکھونگا اور مجھے معلوم ہے کہ میرے کسی بھی ایجنڈے پر اتفاق نہیں ہوگا۔ سب سے پہلے بلوچستان میں لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ اگر اُن پر کوئی کیس ہے تو مقدمات چلائے جائیں۔ بلوچستان میں آپریشن میں ملوث فوجی جرنیلوں، سیاستدانوں کو سزا دی جائے۔ فوج بلوچستان سے چلی جائے یہ میرے اولین شرائط ہیں۔ جو مقتدرہ قوتوں کو کسی صورت قبول نہیں ہونگے۔ بلوچستان میں جوکچھ ہورہا ہے، اس پر میڈیا بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ میڈیا بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا بھی دورہ نہیں کرسکتی۔ تمام الزامات بلوچوں پر لگانا غلط ہے۔ کیونکہ بلوچ قوم صرف اپنی سرزمین کی دفاع کیلئے جنگ لڑرہی ہے۔ جس دن فوج واپس چلی جائے گی، اس دن بلوچ بھی اسلحہ نہیں اٹھائینگے۔ کیونکہ بلوچوں پر جاری ظلم کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 500077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش