0
Monday 17 Jan 2011 15:39

توہین رسالت قانون کے تحت اب تک ملک میں 950 سے زائد مقدمات درج کیے گئے

توہین رسالت قانون کے تحت اب تک ملک میں 950 سے زائد مقدمات درج کیے گئے
 لاہور:اسلام ٹائمز-پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت مقدمات کا ریکارڈ رکھنے والے اداروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اِس قانون کے غلط استعمال نے ناصرف غیرمسلم اقلیتوں بلکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر اس قدر سنگین الزامات عائد کرنا، جن میں سے بیشتر ابتدائی پولیس تحقیق ہی میں ثابت نہیں ہو سکے، ملک میں مختلف فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کا پتہ دیتا ہے۔ توہین ر سالت کے قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اِس قانون کے تحت اب تک ملک میں 950 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر عیسائی، ہندو یاقادیانی نہیں بلکہ مسلمان شہریوں کے خلاف ہیں،950 میں سے 480 مقدمات مسلمانوں کے خلاف اور 350 کے قریب قادیانیوں کے خلاف درج کیے گئے ہیں۔ عیسائیوں کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات کی تعداد 120 کے قریب جبکہ ہندو شہریوں کے خلاف صرف 14مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے میں جتنے مقدمات درج ہوئے وہ ان درخواستوں کا پانچواں حصہ بھی نہیں تھے جو اس طرح کے مقدمات درج کروانے کے لیے پولیس کے پاس دائر کی گئیں یعنی توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کے تحت دائر کی گئی 4 ہزار درخواستیں پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بالکل ہی بے بنیاد ہونے کی بنا پر مسترد کر دیں، یہ بات بھی ماہرین کے نزدیک قابل بحث ہے کہ جو مقدمات دائر ہوئے ان میں سے کتنے حقائق کی نمائندگی کرتے ہیں کیونکہ 1984ء سے لے کر جب توہین مذہب کا قانون پہلی بار پاکستان کے قانون کا حصہ بنا، ابھی تک کسی ایک ملزم کے خلاف بھی عدالتی عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے، یعنی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کسی ملزم کو توہین رسالت کے قانون کے تحت سزا نہیں دی ہے۔ 
2000ء کے بعد پاکستان میں توہینِ رسالت و مذہب کے الزام کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں ایک نیا رجحان دیکھنے میں آیا اور یہ رجحان پاکستانی معاشرے میں اس دور میں پروان چڑھنے والے رویوں کی مکمل طور پر عکاسی کرتا ہے،انسانی حقوق کے اداروں کے اعدا و شمار بتاتے ہیں کہ 2000ء کے بعد سے اس قانون کے تحت سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں کے خلاف درج کیے گئے، جتنے مقدمات درج کیے گئے اس سے پانچ گنا زیادہ درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں سے بیشتر مسلمانوں کے ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مخالف فرقے کے خلاف دائر کی گئی تھیں، یہ وہی دور ہے جب پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے عروج حاصل کیا۔
اس رجحان کی تازہ ترین مثال ڈیرہ غازی خان کے اس امام مسجد کی ہے جسے مخالف فرقے کے ایک اجتماع کا پوسڑ پھاڑنے پر اس کے بیٹے کے ہمراہ 40 سال کی سزا سنائی گئی ہے،دوسری جانب پاکستان میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے سینیئر مذہبی رہنماوں کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ وہ توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کی تحقیقات کا آغاز کر رہے ہیں، گروپ میں شامل حاجی حنیف طیّب نے کہا کہ اس سلسلے میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما کی 10 رکنی کمیٹی قائم کی جائے گی۔

خبر کا کوڈ : 50741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش