0
Wednesday 24 Feb 2016 15:49

ڈی ایچ اے اسکینڈل، سابق آرمی چیف کیانی کیخلاف تحقیقات کی درخواست

ڈی ایچ اے اسکینڈل، سابق آرمی چیف کیانی کیخلاف تحقیقات کی درخواست
اسلام ٹائمز۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی مرتبہ ان کا نام ڈی ایچ اے اراضی اسکینڈل کے سلسلے میں لیا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک سابق عہدیدار لیفٹیننٹ کرنل (ر) طارق کمال نے 22 فروری کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو دی گئی ایک درخواست میں اس حوالے سے تحقیقات کرنے کا کہا کہ آیا جنرل اشفاق پرویز کیانی ڈی ایچ اے ویلی کے ٹھیکے میں بےقاعدگیوں یا بے ضابطگیوں میں ملوث رہے یا آیا ان کا نام فیصلہ سازوں کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانے کے لے استعمال کیا گیا۔ تاہم کمال طارق کی درخواست پر اس وجہ سے کوئی عمل نہیں کیا جاسکا کیونکہ نیب کے پاس اُن فوجی افسران کے معاملات دیکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہے جو سول انتظامیہ کے ساتھ کام نہ کر رہے ہوں۔ ڈی ایچ اے ویلی اسکینڈل، زمینوں کےاُن 50 بڑے اسکینڈلز میں سے ایک ہے جنھیں نیب نے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا تھا۔ اشفاق پرویز کیانی کو دسمبر 2007ء میں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا گیا تھا۔

درخواست کے مطابق 2008ء میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹاون نے ڈی ایچ اے ویلی کے مشترکہ ٹھیکے پر دستخط کیے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کو فیز ٹو ایکسٹینشن کے قریب 40 ہزار کنال زمین خریدنی تھی، یہ منصوبہ 2005ء میں ڈی ایچ اے اسلام آباد نے بنایا اور اس کی مارکیٹنگ کی۔ بحریہ ٹاؤن کے سی ای او ملک ریاض نے زمین خریدنے میں مشکل پیش آنے پر اُس وقت کے ڈی ایچ اے کے نائب صدر میجر جنرل آصف سے زبانی درخواست کی کہ وہ ڈی ایچ اے ویلی پراجیکٹ کو ڈی ایچ اے کی زمین پر تعمیر کرنے کی اجازت دیں۔ 25 فروری 2009 کو ہونے والی ایک ملاقات میں اس کی اجازت مل گئی اور ڈی ایچ اے کی تقریباً 30 ہزار کنال زمین مجاز اتھارٹی کی اجازت کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو منتقل کردی گئی، جس سے بحریہ ٹاؤن کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ڈی ایچ اے نے 100 ارب روپے سے زائد کی رقم بینک گارنٹی کے بغیر بحریہ ٹاؤن کو ٹرانسفر کی، درخواست میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ منصوبے کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود ڈی ایچ اے کا منافع برقرار رہا اور اس میں اس تناسب سے اضافہ نہیں کیا گیا۔

درخواست میں الزام لگایا گیا کہ جنوری 2009ء میں میجر جنرل آصف نے ڈی ایچ اے کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ کے دوران ہدایات جاری کیں کہ مشترکہ ٹھیکے کی تکمیل میں تیزی لائی جائے کیونکہ اس کی منظوری آرمی چیف کی جانب سے دی گئی ہے، ساتھ ہی انھوں نے پراجیکٹ کی جلد از جلد تکیمل کی ہدایات جاری کیں۔ ان مشترکہ معاہدوں پر دستخط سے بحریہ ٹاؤن کو اربوں روپے کا منافع حاصل ہوا۔ جب نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل ظاہر شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ بیورو، فوجی افسران کے خلاف انکوائریوں کا آغاز نہیں کر سکتا۔ انھوں نے کہا کہ نیب کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف بھی متعدد درخواستیں موصول ہوئیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا کیونکہ اگر حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسران پر مالی غبن کا الزام ہو تو ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت ہی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح جب 2009ء میں نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل سی) اسکینڈل سامنے آیا تھا، تو نیب کو تفتیش کا کہا گیا تھا، لیکن بعد میں ملزم قرار دیئے گئے 3 جرنیلوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے فوجی حکام کی جانب سے روک دیا گیا تھا۔

مذکورہ کیس کی تفتیش فوج نے خود کی اور اگست 2015ء میں ریٹائرڈ میجر جنرل خالد ظاہر کو فوجی سروس سے برطرف کرکے ان سے فوجی منصب، میڈلز اور ایوارڈ واپس لے کر ان کی پنشن بھی معطل کردی گئی اور ان سے میڈیکل سہولیات بھی واپس لے لی گئیں۔ اسکینڈل میں ملوث لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کو شدید ناپسندیدگی کی سزا دی گئی، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر خان پر کوئی مالی بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ نیب نے حال ہی میں ڈی ایچ اے کے سابق ایڈمنسٹریٹر ریٹائرڈ بریگیڈیئر جاوید اقبال اور ڈی ایچ اے کے سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر ریٹائرڈ کرنل صباحت قدیر بٹ کو گرفتار کیا، جن پر ڈی اے ایچ اے اسلام آباد کے الاٹمنٹ سرٹیفیکیٹس کی غیر قانونی فروخت اور ڈی ایچ اے اور الائیسم ہولڈنگز پاکستان کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔  جی نیب ظاہر شاہ کے مطابق چونکہ مذکورہ دونوں افراد ڈی ایچ اے کے ساتھ کام کر رہے ہیں، لہذا ان کے خلاف ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 523341
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش