0
Sunday 30 Jan 2011 15:31
معروف روزنامے "القدس العربی" کا مصر کے بارے میں تجزیہ:

مصری حکومت کا سقوط، خطے میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا واضح ثبوت

مصری حکومت کا سقوط، خطے میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا واضح ثبوت

اسلام ٹائمز[مانیٹرنگ ڈیسک]۔ لندن سے شائع ہونے والے مشہور عربی روزنامے "القدس العربی" نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مصر میں جمعے کے روز انجام پانے والے مظاہرے اصل میں حسنی مبارک کی حکومت سے مصری عوام کی ناراضگی اور عدم اطمینان کا معیار خیال کئے جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مصری قوم نے تیونسی عوام کی مانند خوف کو ترک کر دیا ہے اور اب وہ فوجی ٹینکوں اور سیکورٹی فورسز کے ڈنڈوں سے کوئی واہمہ نہیں رکھتے اور آنسو گیس کو خوشبودار عطر کی مانند سونگھ رہے ہیں۔
مصر میں حکمفرما متزلزل نظام کو اب جانا ہو گا:
اخبار اس رپورٹ میں مزید لکھتا ہے: "مصر میں حاکم نظام متزلزل اور اسکا تسلط کمزور ہو چکا ہے اور عوام کے طاقتور مظاہروں اور نعروں کے مقابلے میں جو اس کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور کرپشن، آمریت اور ظلم و ستم کی شدید مذمت کر رہے ہیں، ڈھیلا پڑ گیا ہے"۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "معلوم نہیں مصری نظام کس قدر ان مظاہروں کے سامنے مزاحمت کرتا ہے تاہم جو ہمارے علم میں ہے وہ یہ ہے کہ مصری عوام کی موجودہ تحریک انکے گذشتہ مظاہروں اور اعتراضات سے بہت مختلف ہے۔ دوسری طرف انکی وہ مشکلات بھی جو مصر کی موجودہ صورتحال کا باعث بنی ہیں پہلے سے فرق رکھتی ہیں"۔
القدس العربی مزید لکھتا ہے: "مصر میں چار کروڑ عوام انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ افراد جو غربت کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے انکی حالت بہتر ہے۔ مصری عوام کی معاشی صورتحال اس حد تک بری ہو چکی ہے کہ سوائے ایک مخصوص طبقے کے، جو حسنی مبارک کے حاکم نظام کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے اور ناجائز طریقوں سے کمائی کرتا ہے، باقی عوام نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں"۔
مصری سیکورٹ فورسز کا عوام کے ساتھ مل جانا:
یہ عرب روزنامہ مزید لکھتا ہے: "مصر کی موجودہ تحریک کے شہداء کی تعداد اب تک تیونس اور یمن کے شہداء کے مقابلے میں کم ہے، تاہم انکے گراف میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر کی سیکورٹی فورسز، جنکی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے، اپنے عوام کا خون بہانا نہیں چاہتیں۔ یہ مسئلہ انتہائی اھم ہے جو مصر کے مستقبل پر بہت موثر ثابت ہو سکتا ہے۔
شاید مصر کی سیکورٹی فورسز عوام کے قتل عام سے بچنے کیلئے آخرکار انہیں سے جا ملیں اور اس طرح نئے لیڈران کے انتخاب کا راستہ فراہم کر دیں جو مصر کے امور کی باگ ڈور سنبھالیں تاکہ مصری قوم اپنا وہ وقار اور عرب دنیا، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مرکزی کردار واپس حاصل کر سکے جو گذشتہ 30 سال سے کھو چکی ہے"۔
واشنگٹن پریشان ہونے میں حق بجانب ہے:
اخبار لکھتا ہے: "واشنگٹن کو حق پہنچتا ہے کہ وہ پریشانی کا شکار ہو کیونکہ مصر کے موجودہ نظام کا ٹوٹنا مشرق وسطی میں امریکہ کی تمام تر خارجہ پالیسیوں کی شکست کے مترادف ہو گا۔ نیز اس سے اسکے بقول دھشتگردی کے خلاف جنگ میں ناکامی اور افغانستان اور عراق میں موجود اسکے فوجیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ امریکی حکومتوں نے ہمیشہ مصر میں موجود حاکم نظام کو بچانے کیلئے بہت زیادہ کوشش کی ہے اور بڑی مقدار میں پیسہ خرچ کیا ہے۔ اسکی وجہ یہ نہیں کہ وہ مبارک رژیم کو پسند کرتے ہیں بلکہ انہوں نے یہ سب کچھ صرف اور صرف اسرائیل کی سلامتی اور اسکی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر انجام دیا ہے"۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "یقیناً اسرائیلی بھی سخت پریشانی کا شکار ہوں گے اور مصر کے حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہوں گے۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ اسرائیلیوں کیلئے مصر میں موجودہ نظام سے بہتر کوئی نظام برسر اقتدار نہیں آئے گا جو انتہائی معمولی مفادات کے بدلے اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہا ہے"۔
عرب دنیا کی معتدل حکومتیں دوراہے پر کھڑی ہیں:
القدس العربی لکھتا ہے: "ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ عرب دنیا کی اعتدال پسند حکومتیں جو مصری حکومت پر تکیہ کئے ہوئے تھیں تیونس کو ہاتھ سے دھو بیٹھنے کے بعد اس وقت نہایت مشکل دوراہے پر کھڑی ہیں اور حتی مصر، جو ان کیلئے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کو بھی کھو دینے کے نزدیک ہیں۔
مصر بنیادی تبدیلیوں اور حسنی مبارک کے نظام کے خاتمے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن یہ تبدیلیاں وقت گزرنے کی بھی محتاج ہیں۔ ممکن ہے اب تک اس نظام کے بعض عناصر اپنے لئے محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ہوں تاہم وہ افراد جنہوں نے ملک کے وقار اور دولت کو لوٹا ہے، یقیناً ہرگز آرام اور سکون کی زندگی نہیں جی سکیں گے"۔

خبر کا کوڈ : 52567
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش