0
Wednesday 20 May 2009 09:51

کنگ سنگھ : منموہن دوبارہ وزیراعظم نامزد،سونیا پارٹی چیئر پرسن کے عہدے پر برقرار

کنگ سنگھ : منموہن دوبارہ وزیراعظم نامزد،سونیا پارٹی چیئر پرسن کے عہدے پر برقرار
نئی دہلی : بھارت میں پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کانگریس کی پارلیمانی پارٹی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دوبارہ وزیراعظم بنانے کی متفقہ منظوری دیدی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کی زیر صدارت سینٹرل ہال نئی دہلی میں منعقد ہوا جس میں سونیا گاندھی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نام پیش کیا اور پارلیمانی پارٹی نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی جبکہ سونیا گاندھی پارلیمانی پارٹی کی چیئر پرسن کے عہدے پر برقرار رہیں گی۔ کانگریس کی پارلیمانی پارٹی نے سابق وزیر خارجہ پرناب مکھرجی کو لوک سبھا کا قائد ایوان منتخب کیا۔ دریں اثناء خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق منموہن سنگھ کو اپنے پہلے دور اقتدار میں (Reluctant King) ’’ہچکچاہٹ کا بادشاہ‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ 76 سالہ نرم گو منموہن سنگھ نے خود کو بھارت کے کامیاب ترین سیاسی لیڈروں میں سے ایک ثابت کر کے ناقدین کا منہ بند کر دیا ہے۔ جواہر لال نہرو کے بعد وہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد دوسری بار وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال چند ہفتے قبل کے حالات کے حوالے سے ایک بہت بڑی تبدیلی ہے جب کانگرس کے اپنے اتحادیوں نے بھی انہیں کمزور ہونے کا الزام دیکر وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے پر زور دیا تھا۔ قبل ازیں جب ان کے دل کا بائی پاس ہوا تھا تو اس وقت ان کے بہت سے ناقدین کا خیال تھا کہ وہ مہینہ بھر کے انتخابات میں کانگرس کو فتح سے ہمکنار کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔ تاہم سونیا گاندھی کی حمایت سے جنہیں عام طور پر اقتدار کے پیچھے کارفرما اصل طاقت قرار دیا جاتا ہے،انہوں نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اخبار کے مطابق مغربی بنگال میں جو کمیونسٹوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے،کمیونسٹ پارٹی کی شکست کے بعد منموہن سنگھ مالیاتی شعبے کی نجکاری اور اسے آزادانہ حیثیت دینے تک کے فیصلے کرنے میں آزاد ہونگے تاہم اخبار کیمطابق انہیں گزشتہ چھ سال میں ترقی کی سست ترین رفتار کے علاوہ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے اور پاکستان کی صورتحال جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ حالیہ انتخابات پہلا واقعہ نہیں جب منموہن سنگھ کی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا گیا بلکہ گزشتہ سال بھی انہوں نے امریکہ کے ساتھ ایٹمی تعاون کے معاہدے کے حوالے سے کمیونسٹ مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ منموہن سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ تمام پارٹیوں سے کہتے ہیں کہ وہ سیکولر حکومت کی حمایت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہو کر چلنا ہوگا۔ دریں اثناء بی جے پی کے رہنماء ارون جیٹلے نے کہا ہے کہ حکمران اتحاد سب سے بڑے اتحاد کے طور پر سامنے آ رہا ہے اس لئے مینڈیٹ ان کے حق میں ہے اور ہم اس مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ سی پی ایم کے پرکاش کرات نے کہا کہ انتخابات میں ان کی پارٹی کو جو دھچکا لگا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ پارٹی کی ناقص کارکردگی کی وجوہ کا سراغ لگایا جائے۔ آر جے ڈی کے رہنماء لالو پرشاد نے اپنی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ کانگرس اتحاد سے الگ ہونے کے نتیجے میں ان کی پارٹی کو زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ٹی جی کی ممتا بینرجی نے انتخاب نتائج پر اپنے تبصرے میں کہا کہ انتخابی نتائج مغربی بنگال کی حکومت پر عدم اعتماد کے مظہر ہیں۔


خبر کا کوڈ : 5311
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش