0
Wednesday 27 Apr 2016 22:10

جامعۃ المنتظرلاہور میں سینیئر کالم نگارروں کیساتھ ایک اہم نشست

جامعۃ المنتظرلاہور میں سینیئر کالم نگارروں کیساتھ ایک اہم نشست
رپورٹ: ابو فجر لاہوری

جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن لاہور میں کالم نگاروں اور سینیئر صحافیوں کیساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں کالم نگاروں میں اوریا مقبول جان، زمرد نقوی، فضل حسین اعوان اور لطیف چودھری جبکہ جامعۃ المنتظر کی جانب سے علامہ سید نیاز حسین نقوی، مولانا محمد افضل حیدری، مولانا ملک غلام باقر گھلو، سید قاسم رضا نقوی اور نصرت علی شہانی موجود تھے۔ شرکائے محفل کے باہمی تعارف کے بعد علامہ سید نیاز حسین نقوی نے جامعۃ المنتظر کا تعارف کرایا۔ مالیات کے حوالے سے نظام خمس کی وضاحت کی کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان سے بھی خمس مراجع کرام (مجتہدین) کو بھیجا جاتا ہے، جس میں سے کچھ حصہ ہمیں واپس ملتا ہے۔ علامہ سید نیاز حسین نقوی نے جمہوری اسلامی ایران میں عدلیہ سے اپنی وابستگی کی تفصیل بتائی۔ روزنامہ نوائے وقت کے شعبہ ادارت سے منسلک فضل حسین اعوان نے انقلابی عدالتوں کی طرف سے مخالفین کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کے بارے سوال کیا۔ جواب میں علامہ نیاز حسین نقوی نے کہا کہ جو کچھ ہمارے ہاں اب دہشتگردی میں ہو رہا ہے، مجاہدین خلق نے یہی ایران میں کیا، بے گناہوں کا قتل، بم دھماکے وغیرہ جس کے سدباب کیلئے انقلابی عدالتیں بنائی گئیں، جن میں باضابطہ سماعت اور اعتراف جرم کے بعد سزائیں سنائی جاتیں۔ پھر ان کے مختلف مراحل میں اپیلیں ہوتیں، اس کے بعد سزا پر عمل کیا جاتا۔ یہ سزائیں احکام قرآنی کے مطابق ہوتیں، جس کی رو سے دہشتگردی کی 4 سزائیں ہیں، قتل، سولی پہ لٹکایا جائے، قطع اعضاء از مخالف سمت اور ملک بدری۔ ان سزاؤں میں عدالتی اور شرعی تقاضے پورے کئے گئے۔

دینی مدارس کی تاریخ کے بارے اوریا مقبول جان کا خیال تھا کہ انگریزوں نے 1781ء میں انڈیا میں پہلا مدرسہ قائم کیا۔ علامہ نیاز نقوی نے کہا مدارس کا آغاز اسلام کے آغاز سے ہی ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ نے پہلا مدرسہ مسجد نبوی میں قائم فرمایا۔ 290ھ تک یہ مدارس مساجد میں رہے، پھر تعداد میں اضافہ کی وجہ سے الگ سے عمارات بننا شروع ہوئیں۔ اہل منبر و قلم کی اہمیت اور ذمہ داریوں کے بارے علامہ سید نیاز حسین نقوی نے کہا کہ قلم ایک امانت ہے، اس کا استعمال احتیاط سے کیا جائے۔ دنیاوی چند روزہ زندگی میں اس کے فوائد و نقصانات جلد ختم ہو جائیں گے، مگر کل بروز قیامت ایک ایک لفظ کا حساب ہوگا۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ شیعہ مدارس کا مرکز ہونے کی وجہ سے لوگ یہاں جامعۃ المنتظر میں رابطہ کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ ارباب میڈیا سے شیعہ مسلک سے مربوطہ امور میں درست مؤقف پیش کرنے کا مطالبہ کیا جائے، اسی طرح اگرچہ ہم ہر معاملہ میں ایران کے وکیل صفائی کی ذمہ داری نہیں رکھتے، لیکن چونکہ وہاں علماء کی حکومت ہے، لہٰذا اس سے لاتعلق بھی نہیں رہا جا سکتا اور اس اسلامی حکومت کیخلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کا مناسب دفاع کیا جانا چاہئے۔ اہل قلم کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کسی موضوع پر حتمی رائے کے اظہار سے قبل متعلقہ فریق کا مؤقف معلوم کریں۔

انقلاب ایران کے ضمن میں علامہ سید نیاز حسین نقوی نے بتایا کہ امام خمینی کو شاہ ایران کی حکومت میں ہندی مجتہد کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے آباء و اجداد کشمیری تھے۔ شاہ ایران نے یہی اعتراض کیا تھا کہ ایک ہندی مجتہد ہماری حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ اسلامی مسالک کے مابین وحدت و اتحاد کی بنیادوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فضیلت، اہمیت و عظمت کے لحاظ سے تمام مسلمان اس ترتیب سے متفق ہیں، خدا، رسول، اہلبیت ؑ اور صحابہ، اصل اختلاف مسئلہ خلافت پر ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا جانشین کون ہے؟ اس کا جواب تاریخ میں موجود ہے اور اب اس کا موقع گزر چکا ہے۔ اب اس غیر ضروری بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو جسے مانتا ہے، اس کا مسلکی معاملہ ہے۔ اس کو باعث نزاع نہیں بنانا چاہئے۔ کچھ اختلافات ہیں تو انہیں بھی منبر، محراب یا میڈیا سے بیان کرنا درست نہیں بلکہ یہ ابحاث کلاس رومز، داخلی محافل کیلئے ہیں۔ گذشتہ سال اسی مقام پر ہمارے علماء، طلباء اور عوام نے مفتی منیب الرحمان کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ ایران میں بھی کوئی ایسی تفریق نہیں۔ ایک ہی مسجد میں شیعہ، سنی ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔

اوریا مقبول نے بھی ایران اور لاہور میں ایرانی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر اپنی امامت میں شیعہ حضرات کے نماز پڑھنے کے واقعات کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے قبل از تقسیم لکھنؤ کے ایک ایجی ٹیشن کا حوالہ دیا، جو انگریز حکمرانوں کے مسلمانوں کو لڑانے کے منصوبے کا حصہ تھا۔ مولانا محمد افضل حیدری نے کہا ہمیں لڑانے والے عناصر کوئی اور ہیں، جیسا کہ ایک کالعدم تنظیم کے عہدیدار نے 1990ء کے عشرے میں جھنگ میں امام مہدی ؑ کے خلاف گستاخانہ خطاب کے بارے کچھ دینی، سیاسی شخصیات کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ چند عرب ممالک کے سفیروں نے ایسا کرنے کا کہا تھا، تاکہ ردعمل میں ایران کو ملوث کیا جا سکے۔ زمرد نقوی نے ایران میں خواتین کی حیثیت کے بارے سوال کیا۔

علامہ نیاز نقوی نے بتایا کہ ہمارے ملک کے برخلاف وہاں عورتوں کو زیادہ حقوق و مراعات حاصل ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں حجاب کی پابندی کیساتھ کام کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی ہیں۔ لطیف چودھری نے ایران میں ترقی کے ضمن میں شاہی اور موجودہ دور کے تقابل کی بات کی۔ علامہ سید نیاز حسین نقوی نے اسے زمین آسمان کے فرق سے تعبیر کیا، جس سے اوریا مقبول نے بھی اتفاق کیا۔ دونوں شخصیات کی رائے تھی کہ شاہ کے دور میں فقط تہران یا ایک آدھ اور شہر پر توجہ دی جاتی تھی، جبکہ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد دور دراز دیہاتوں تک سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ تعلیم مفت ہے، علاج کی مد میں اکثر اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ گذشتہ دور حکومت سے ہر شہری کو نقدی کی شکل میں وظیفہ ملتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 535469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش