0
Thursday 12 May 2016 17:44

سندھ پولیس میں 1200 غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف

سندھ پولیس میں 1200 غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف
اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ سابقہ آئی جی سندھ کے دور میں سندھ پولیس میں 12 سو غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں، جبکہ سندھ پولیس کے پاس کوئی جہاز نہ ہونے کے باوجود جیٹ فیول کی خریداری کی مد میں ایک کروڑ روپے خرچ کر دیئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید اویس قادر شاہ کی صدارت میں ہوا، جس میں سیکریٹری داخلہ سندھ، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، اسپیشل سیکریٹری ریاض سومرو، رکن اسٹینڈنگ کمیٹی غلام قادر چانڈیو سمیت محکمہ داخلہ کے اعلیٰ افسران اور کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع کے ایس ایس پیز نے شرکت کی۔ قائمہ کمیٹی نے سوال کیا کہ سکھر میں پولیس نے ایک کروڑ روپے کا جیٹ فیول خریدا ہے، پچھلے آئی جی کے دور میں ہونے والی اس خریداری کی حقیقت کیا ہے، سندھ پولیس کے پاس کوئی جہاز نہیں، تو جیٹ فیول کیسے خریدا جا سکتا ہے۔

آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ بات میرے علم میں آئی ہے، لیکن کچھ ایسے معاملات ہیں جو بتانا مناسب نہیں، اگر قائمہ کمیٹی چاہے تو ہم ان کو بند کمرے میں بتا سکتے ہیں، ضرب عضب آپریشن اور کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانے کیلئے کوششیں جاری ہیں، کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں عالمی قوتوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملتے رہے ہیں۔ اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن غلام قادر چانڈیو نے کہا کہ ایس ایس پی لیول کے افسران کا رویہ عوام کے ساتھ بہتر ہے، لیکن نچلے درجے کے پولیس افسران کو سدھارنے کی ضرورت ہے، محکمہ پولیس میں ٹرانسفر پوسٹنگ کو بھی شفاف بنایا جا رہا ہے، تاکہ ان سے بہتر کام لیا جا سکے، ایس آر پی سکھر میں بے ضابطگیوں پر کمیٹی بنائی گی تھی، کراچی 160 غیرقانونی بھرتیاں کی گئی تھیں۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خلاف ضابطہ بھرتیاں ہو رہی تھی، اب سپریم کورٹ بھی ان کیخلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین غلام قادر شاہ نے کہا کہ پولیس کے جوان اتنی قربانیاں دے رہے ہیں، لیکن ان کے ورثا کو نہ معاوضہ ملتا ہے نہ نوکری، ہمارے پاس شہید اہلکاروں کے ورثا آتے ہیں کہ انھیں کچھ نہیں مل رہا، ہماری جانب سے مانگی گئی تفصیلات اب تک کمیٹی کو فراہم نہیں کی گئی۔ آئی جی سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ شہید اہلکاروں کے ورثا کی شکایات جائز ہیں، لیکن اب ہم نے بہت مسئلے حل کر دیئے ہیں۔ چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی اویس قادر شاہ نے کہا کہ پولیس فورس میں پہلے غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں، اور پھر انھیں ٹریننگ دے کر نکال دیا گیا، سپریم کورٹ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اب وہ ٹریننگ یافتہ لوگ کہاں جائیں گے، اگر مطلوبہ طریقہ کار اپنایا نہیں گیا، تو ان افسران کے خلاف کیا کارروائی ہوئی، اگر کل کو وہ لوگ پولیس ٹریننگ کا غلط استعمال کریں گے، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، جعلی بھرتیاں کرنے والے افسران کو نشان عبرت بنایا جانا چاہیے۔

آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس میں تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی، 1200 سے زائد پولیس اہلکاروں کی بھرتی میں قواعد و ضوابط کو بائی پاس کیا گیا، ایک ضلع میں 400 پولیس اہلکاروں کے قد کی پیمائش ایک جیسی لکھی گئی، نیب پولیس میں غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کر رہی ہے، غیر قانونی بھرتی ہونے والے پولیس اہلکاروں کو بطور آئی جی کوئی فائدہ نہیں دے سکتا ہوں، ریزرو پولیس میں بھرتی کیلئے اشتہار دے رہے ہیں، پولیس کے پاس جو گاڑیاں ہیں وہ ناکافی ہیں، بہت سی گاڑیاں تو سیاستدانوں کے پروٹوکول اور سیکیورٹی میں ہوتی ہیں۔ سیکریٹری داخلہ سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبے میں 19 انسداد دہشتگردی کی عدالتیں کام کر رہی ہیں، جن میں سے 10 کراچی اور باقی 9 مختلف اضلاع میں ہیں، جبکہ 10 مزید عدالتیں کراچی سینٹرل جیل اور 10 سندھ کے دیگر اضلاع میں بنائی جا رہی ہیں، اپیکس کمیٹی کے فیصلوں کے تحت 30 عدالتیں بڑھانی ہیں، انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کو دہشتگردوں سے خطرات ہیں۔
خبر کا کوڈ : 538170
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش