0
Saturday 21 May 2016 20:30

پاراچنار کا علاقائی مسئلہ کو عالمی سطح تک پہنچانے پر پورے ملک کی ملت تشیع کے شکرگزار ہیں، علامہ منیر جعفری

پاراچنار کا علاقائی مسئلہ کو عالمی سطح تک پہنچانے پر پورے ملک کی ملت تشیع کے شکرگزار ہیں، علامہ منیر جعفری
مولانا منیر حسین جعفری جولائی 2012ء کو پہلی دفعہ تحریک حسینی کے صدر منتخب ہوئے۔ اسکے بعد 2014ء میں دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔ تاہم رواں ماہ 2016ء کو انکی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے۔ موصوف معتدل مزاج و طبیعت کے مالک اور غیر متنازعہ شخصیت کے حامل ہیں۔ اپنی صدارت کے دوران کرم ایجنسی کی سطح پر اہل تشیع کے اتحاد کے لئے کافی کوششیں کیں۔ پاراچنار میں موجود مختلف سیاسی قوتوں میں برابر طور پر مقبول ہیں۔ مولانا صاحب مختلف سیاسی طبقات کو ایک میز پر بٹھانے کا ملکہ رکھتے ہیں، جس کے لئے انہوں نے عملاً کوششیں بھی کی ہیں۔ تحریک حسینی کے پلیٹ فارم سے کچہری سے لیکر ذاتی معاملات تک بلا تفریق عوام کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ سانحہ تین شعبان کے حوالے سے انکے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی ہے، جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: تین شعبان کو ہونے والے اس پروگرام کی نئی روایت تھی، یا اس سے پہلے بھی یہ ہوتا آیا ہے۔؟
علامہ منیر حسین:
تقریباً تیئس چوبیس سال سے یہ روایت چل رہی ہے، یہ کوئی نئی روایت نہیں ہے، ہم کئی سال سے اس جلسہ کا سالانہ بنیاد پر اہتمام کر رہے ہیں، اس میں علاقائی علمائے کرام کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے علماء کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جن علمائے کرام کو آپ نے پاراچنار سے باہر سے مدعو کیا تھا، کیا ان پر کبھی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی گئی تھی، یا اشتعال انگیزی کے حوالے سے ان پر کوئی الزام کبھی عائد ہوا۔؟
علامہ منیر حسین:
ملکی سطح پر اگر حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے تو بتایا جائے کہ یہ لوگ اشتعال انگیزی کے حوالے سے معروف ہیں، اگر ایسا تھا تو حکومت کو ہمیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ ان شخصیات کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر پابندی ہے، اگر ایسی کوئی بات تھی تو یہ حکومت کو بتانا چاہئے تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا اس حوالے سے حکومت نے آپ کو کوئی نوٹس جاری کیا تھا، اور اس پروگرام کے حوالے سے حکومت کو آگاہی تھی۔؟
علامہ منیر حسین:
ہم نے پروگرام کے حوالے سے چار روز قبل پوسٹرز لگائے تھے، حکومت اور پورے پاراچنار اور گردو نواح کے عوام اس حوالے سے بخوبی آگاہ تھے، اگر حکومت کو اس حوالے سے کوئی تحفظات تھے تو حکومت کو آگاہ کرنا چاہئے تھا۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ پہلے یہ پروگرام چار دیواری کے اندر ہوتا تھا، اس بار باہر کیوں کیا گیا۔؟
علامہ منیر حسین:
ہم نے 11 فروری کو پروگرام کرنا تھا، انتظامیہ نے ہمیں کہا کہ جن کو آپ بلا رہے ہیں، ان کا نام لکھ کر دے دیں، ہم نے ان کو کہا کہ پوسٹرز پر مقررین کے نام لکھے ہوئے ہیں، ہم نے ان کو ایک پوسٹر بھی دیا اور نام بھی لکھ کر دے دیئے کہ یہ دو شخصیات آرہی ہیں۔ یہ شخصیات جب دو شعبان کو آرہی تھیں تو انتظامیہ نے انہیں روک لیا۔ ہم نے ان سے مذاکرات کئے اور کہا کہ پروگرام چار دیواری کے اندر ہوگا، ہم رات گئے تک مسئلہ بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرتے رہے، ہم نے انہیں کہا کہ آپ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم چار دیواری سے باہر آکر احتجاج کا راستہ اختیار کریں۔ جب انتظامیہ کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوئی تو اگلے روز جب عوام کو معلوم ہوا کہ علماء کو پاراچنار نہیں آنے دیا گیا، تو ان کو اشتعال آیا۔ پھر ایک کمیٹی بنی اور فیصلہ کیا گیا کہ پرامن احتجاج کیا جائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ لوگ جب امام حسین (ع) کی ولادت کے جلسہ کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کل شہادت کے جلسوں کو بھی روکنے کی کوشش کریں گے، اور حتیٰ کہ لوکل علماء پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ مین بازار میں رکاوٹ کے باعث لوگوں کو تکلیف ہوگی لہذا شہر سے باہر احتجاج کیا جائے، کیونکہ وہاں تو نہ سرکاری املاک ہیں، نہ ہی دیگر کوئی اہم مقامات، لہذا وہاں پھر احتجاج کیا فیصلہ کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: جب وہاں احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تو کیا اس وقت مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔؟
علامہ منیر حسین:
پہلی بات یہ کہ ہم اسلام آباد جیسی حساس جگہ پر احتجاج نہیں کر رہے تھے، حتیٰ کہ پ اے ہاوس، پریس کلب کے سامنے بھی نہیں بلکہ پاراچنار سے پانچ، چھ کلو میٹر باہر احتجاج کا فیصلہ کیا تھا، اس میں حکومت کو کونسی رکاوٹ تھی۔؟ ہم نے مذاکرات کی کوشش کی، لوئر کرم کے اے پی اے بھی آئے، انہوں نے بھی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہیں کمانڈنٹ کی جانب سے برا بھلا کہا گیا اور حتیٰ کہ دھکے بھی دیئے گئے۔ واضح رہے کہ دھرنا دینے والے افراد کی تعداد 200 سے اڑھائی سو تک تھی، جبکہ ایک احتجاج کرنے والے کے مقابلہ میں دس لیوی اہکار موجود تھے، اس کے علاوہ دیگر فورسز کو بھی طلب کیا گیا۔ فورسز نے شیلنگ شروع کی، ڈنڈے برسائے اور ہوائی فائرنگ کی، وہاں لوگوں نے استقامت دکھائی اور قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر وہاں موجود رہے، پھر ملشیاء کو بھی بلایا گیا اور ہزاروں نہیں لاکھوں گولیاں برسائی گئیں۔ ہوائی فائرنگ اس لئے کی گئی کہ لوگ گھبرا کر واپس چلے جائیں، لیکن لوگ ڈٹے رہے، پھر انہوں نے فوج کو بلا لیا، پھر ایس او جی کمانڈوز کو بلایا گیا، پھر کمانڈنٹ کرنل عمر خود آگے بڑھے اور پھر پستول نکال کر سیدھا فائر کھول دیا، اور پھر فائر کا حکم دیا۔ پھر پرامن مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور 3 نعشیں گر گئیں، 14 افراد شدید زخمی ہوئے۔ انتظامیہ نے اس سے قبل مذاکرات کے بہانے بلا کر ہمارے 7 افراد کو حراست میں بھی لے لیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے ایک لمحہ کیلئے بھی مذاکرات نہیں کئے۔

اسلام ٹائمز: اس سانحہ کے بعد مجلس وحدت مسلمین اور دیگر افراد نے آپ لوگوں کی حمایت میں احتجاج کیا، دھرنے دیئے اور بھوک ہڑتال کی، اس حوالے سے کیا کہنا چاہئیں گے۔؟
علامہ منیر حسین:
میں سب سے پہلے تو ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، تمام مومنین یہ اپنا فرض سمجھیں کہ اگر ایک علاقہ میں مسئلہ ہو تو اس کیخلاف بھرپور آواز بلند کی جائے، جیسا کہ کوئٹہ کا مسئلہ تھا، تمام مومنین کو کسی بھی اس قسم کے مسئلہ پر متحد ہو کر احتجاج کرنا چاہئے، یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ کسی تنظیم یا فرد کا مسئلہ ہے، ہم ایک جسم کی مانند ہیں، ہر فرد، ہر تنظیم کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ظلم پر آواز اٹھائے، ہمارے لئے یہ انتہائی باعث اطمینان ہے کہ یہ ایک علاقائی مسئلہ تھا، جو عالمی سطح پر پہنچ چکا ہے، حکومت کو بھی معلوم ہوگیا کہ یہ صرف سو افراد نہیں تھے بلکہ درحقیقت یہ لاکھوں اور کروڑوں ہیں، ہمارے مومنین کے آواز بلند کرنے کی وجہ سے حکومت کے حوصلے پست اور ہمارے بڑھ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 539045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش