0
Thursday 19 May 2016 18:51

میں نے اپنے اغواء کے بعد 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا، القاعدہ میں کراچی کے لوگ موجود ہیں، علی حیدر گیلانی

میں نے اپنے اغواء کے بعد 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا، القاعدہ میں کراچی کے لوگ موجود ہیں، علی حیدر گیلانی
علی حیدر گیلانی سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہیں، ابتدائی تعلیم رحیم یار خان اور ملتان سے حاصل کی اور بعدازاں لاہور سے گریجوایشن کی، علی حیدر گیلانی 2010ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، علی حیدر گیلانی نے 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے فارم تو جمع کرایا لیکن الیکشن سے پہلے ہی اغواء کرلیا گیا۔ علی حیدر گیلانی کو اُس وقت شہرت ملی اور عالمی طور پر پہچانے گئے جب 9 مئی 2013ء کو ملتان سے الیکشن مہم کے سلسلے میں جلسہ کے موقع پر اغواء کیا گیا۔ اس موقع پر فائرنگ کے نتیجے میں علی حیدر گیلانی کا پرسنل سیکرٹری بھی جاں بحق ہوا۔ اغواء کے بعد مختلف چہ میگوئیاں کی گئیں، لیکن تین سالوں کے بعد 10 مئی 2016ء کو افغانستان کے ضلع غزنی سے امریکی اور افغان فورسز کے مشترکہ آپریشن سے اُنہیں بازیاب کرایا گیا۔ گذشتہ روز وہ اپنے والد کے ہمراہ آبائی شہر ملتان پہنچے تو اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر''اسلام ٹائمز''نے اُن کے ساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال حاضر خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: (وقت دینے کا بہت شکریہ، سب سے پہلے آپ کو رہائی مبارک ہو) اغواء کاروں کے ہاتھوں سے بازیابی اپنے الفاظ میں بیان کریں۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
امریکی فورسز کے جس آپریشن میں مجھے بازیاب کرایا گیا، اس کا القاعدہ کو پہلے سے علم تھا اور وہ مجھے اصل مقام سے منتقل کر رہے تھے، تاہم فورسز نے آپریشن میں مجھے بازیاب کر لیا اور القاعدہ کے دیگر دو افراد مارے گئے۔ آپریشن کی بگرام ائیر بیس سے نگرانی کی جا رہی تھی۔ یہ آپریشن گیانی کے علاقہ میں کیا گیا، جب امریکی اہلکاروں نے مجھے قابو کیا تو میں نے انہیں اپنا تعارف کرایا۔ قبل ازیں وہ تسلیم نہیں کر رہے تھے، مگر بگرام سے تصدیق پر انہوں نے میرے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دیئے اور کہا کہ اب آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں، گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ضرب عضب کے کتنے فوائد نظر آرہے ہیں؟ کیا القاعدہ پاکستان کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
ضرب عضب آپریشن کے دوران نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، میران شاہ القاعدہ کا بڑا گڑھ ہے مگر ضرب عضب سے ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ امریکی فورسز اپنے ٹارگٹ کے حصول میں اصولوں پر کاربند ہیں، وہ دہشت گردوں کو تو چھوڑ سکتے ہیں مگر ان کو مارنے کے لئے کسی بے گناہ کو نہیں مار سکتے۔ مجھے بازیاب کرنے والے اہلکاروں میں جان کلچر بھی شامل تھا۔ اب ہمیں قوم بن کر سوچنا ہوگا اور انکے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ اگرچہ القاعدہ کو بہت نقصان پہنچا ہے، تاہم ابھی القاعدہ اس پوزیشن میں ہے کہ پاکستان کیلے چیلنج بن سکتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر اسلام اور شریعت کو جگہ دینا ہوگی، جب ایسا نظام ہوگا تو ملک میں اسلام آجائے گا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں القاعدہ کی جڑیں ہیں یا نہیں۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
اب بھی پاکستان میں القاعدہ کا نیٹ ورک ہوسکتا ہے۔ القاعدہ میں مختلف زبانیں بولنے والے پاکستانی بھی شامل ہیں۔ کراچی کے لوگ بھی ہیں۔ میرے اغوا سے قبل القاعدہ کے لوگ میرے بھائی عبدالقادر گیلانی اور علی موسی گیلانی کی ریکی کرتے رہے، مگر ان کی سکیورٹی مضبوط ہونے کی وجہ سے انہیں اغوا نہ کرسکے اور کمزور سکیورٹی پر مجھے اغوا کر لیا۔ اغوا کرنے والے پانچ افراد تھے۔ مجھے انہوں نے اڑھائی ماہ تک فیصل آباد میں رکھا، بعدازاں وزیرستان لے گئے۔ میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام الیکشن میں حصہ لیں گے یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کریں گے۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
الیکشن اب میرے لئے چھوٹی چیز ہے، ہم سیاست تو خدمت کے جذبے کے تحت کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ اب میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں، ایم پی اے، ایم این اے بننا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ علی حیدر گیلانی نے سانحہ آرمی پبلک سکول میں اس قدر زیادہ تعداد میں بچوں کی شہادت پر القاعدہ اور افغان طالبان روئے تھے اور کہتے تھے یہ ظلم اور اس سانحہ میں فضل اللہ ملوث تھا۔

اسلام ٹائمز: دوران قید اغواء کاروں کا آپکے ساتھ کیسا سلوک تھا۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
میرے ساتھ القاعدہ اور طالبان کا رویہ بہت اچھا تھا، بعض اوقات میں ان سے الجھ بھی پڑتا تھا۔ میرے بدلے وہ اپنے اہم لوگوں کو چھڑوانا چاہتے تھے، مگر میں ان سے کہتا تھا کہ میرے بدلے میں ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ میں اس قدر اہم نہیں ہوں۔ اگر کوئی جائز رقم لینی ہے تو بات کریں۔ القاعدہ کے پاس دولت کی کمی نہیں، تاہم افغان طالبان کے پاس اس قدر رقم نہیں ہے۔ ایک شخص نے ایک مرتبہ میرے والد کے بارے میں نازیبا بات کی تو میں اس سے الجھ پڑا، مگر دوسروں نے بیچ بچا کرالیا، مگر اس کے بعد کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہ مجھے سائیں کہہ کر بلاتے اور عزت کرتے۔ خوراک اور معیاری ادویات کی کمی نہیں لگی۔ انہوں نے بتایا کہ القاعدہ کے لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ باخبر رکھتے ہیں، انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں، ان کی نقل و حرکت بہت کم ہے۔

اسلام ٹائمز: دوران قید کوئی یادگار واقعہ اور لمحہ۔؟
سید علی حیدر گیلانی:
امریکی فورسز طالبان پر ڈرون حملہ نہیں کرتی تھیں، ان کا ہدف القاعدہ ہے۔ میں نے اپنے اغوا کے 14 ماہ تک آسمان نہیں دیکھا۔ میرا بازیاب ہونا ایک معجزہ سے کم نہیں۔ جس میں میرے والدین اور دوست احباب کی دعائیں شامل ہیں۔ ایک مرتبہ اغوا کار نے رقم کے مطالبہ پر والدہ کو فون کرنے کو کہا کہ رقم کا بندوبست کریں، ورنہ وہ میرا ہاتھ کاٹ دیں گے، مگر میں اپنی والدہ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا اور میں نے فون نہیں کیا۔
خبر کا کوڈ : 539676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش