0
Saturday 23 May 2009 15:17

بایڈن بیروت میں مغرب نواز سیاسی حلقے کی مدد کیلئے کوشاں

بایڈن بیروت میں مغرب نواز سیاسی حلقے کی مدد کیلئے کوشاں
امریکی صدر بارک اوباما کے مشیر جو بایڈن کا حامل ہوائی جہاز ایسے وقت میں بیروت کے ہوائی اڈے پر اترا جب لبنان کی قومی اسمبلی کے الیکشن کے سلسلے میں سرگرم دو رقیب سیاسی پارٹیوں 14 مارچ اور 8 مارچ کی انتخاباتی سرگرمیوں کے نتیجے میں شہر کا حلیہ بدلا بدلا سا محسوس ہو رہا تھا۔ ان اہم اور حساس انتخابات سے دو ہفتے قبل مختلف ذرائع کے توسط سے انجام پائی رائے گیریاں حزب اللہ کی اپنے رقباء پر فتح کو ظاہر کر رہی تھیں۔ اس سفر میں مشرق وسطی سے متعلق چند امریکی ڈپلومیٹس بھی بایڈن کی ہمراہی کر رہے ہیں جن میں لبنان میں سابق امریکی سفیر جفری فیلٹمن بھی شامل ہیں۔ فیلٹمن کانڈلیزا رائس کے وزارت خارجہ کے زمانے میں لبنان میں امریکی پالیسی بنانے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ پچھلے سال حزب اللہ اور 14 مارچ پارٹی کے درمیان نزاع میں کھلم کھلا مداخلت کرنے پر انہیں ایک ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر لبنان سے نکال دیا گیا تھا۔ ابھی امریکی وزارت دفاع کے مشرق وسطی ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری انکو سونپے جانے سے یہ تاثرات سامنے آ رہے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کی "تبدیلی" کے نعروں سے لبنان کو مستثنا کر دیا گیا ہے اور وہاں وہی بش-رائس والی مداخلہ جویانہ پالیسیاں جاری رکھنے کا پروگرام ہے۔ بیروت کے اخبارات کی رپورٹس کے مطابق لبنان میں آنے والے امریکی وفد نے اپنے پہلے اظہار نظر میں وہاں آنے کا مقصد نہیں چھپایا ہے۔ ان اخبارات نے امریکی ڈپلومیٹس کی زبانی یہ لکھا ہے کہ بایڈن بیروت میں تین اہم ملاقاتوں کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں سے ایک ملاقات ایک سیاسی پیغام کے ہمراہ ہے۔ انکی سب سے زیادہ متنازعہ ملاقات قومی اسمبلی میں 14 مارچ پارٹی کے سربراہ سعد حریری سے ہو گی۔ حریری ایک سیاسی جماعت "المستقبل" کے سربراہ بھی ہیں اور چند روز قبل امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ لبنانی اخباری ذرائع کے مطابق سعد حریری جو لبنانی سیاست میں سعودی عرب، فرانس اور امریکہ کے مشترکہ حلیف کے طور پر جانے جاتے ہیں، 7 جون کے انتخابات میں سب سے زیادہ شکست کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بایڈن کی دوسری اہم ملاقات لبنان کے وزیر دفاع الیاس المر سے ہے۔ وائٹ ہاوس نے رسماً اعلان کیا ہے کہ بایڈن لبنانی وزیر دفاع کے ساتھ اپنی ملاقات میں لبنانی فوج کیلئے اپنے نئے امدادی پیکج کا اعلان کرے گا۔ الیاس المر لبنان کی سیاسی صف بندی میں مغرب نواز اور 14 مارچ پارٹی کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے قومی حکومت کی تشکیل کے وقت انکے اس عہدہ پر فائز ہونا حزب اللہ کی طرف سے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ اس سے پہلے بھی امریکی حکام نے اسلحہ کی ترسیل اور مالی امداد کے ذریعے لبنان کی فوج اور سیکورٹی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وفد کے اس سفر میں ان کا تیسرا میزبان لبنانی صدر اور وزیراعظم مچل سلیمان اور فواد سینیورہ ہیں۔ لبنانی صدر ایک غیر جانبدارانہ چہرے کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن لبنانی وزیراعظم لبنان میں مغرب نواز سیاسی حلقوں کی ایک واضح علامت سمجھے جاتے ہیں۔ فواد سینییورہ نے اپنی تمام سیاسی زندگی میں ہمیشہ مغربی ممالک اور ان سے وابستہ عرب ریاستوں پر اعتماد کیا ہے۔ بیروتی اخبارات کی رپورٹس یہ ظاہر کرتی ہیں کہ بایڈن اور فیلٹمن کی لبنانی مغرب نواز سیاستدانوں اور قومی اسمبلی کے امیدواروں کے ہاں آمد و رفت لبنان کی سیاسی شخصیات اور جماعتوں کی طرف سے شدید ردعمل کا باعث بنی ہے۔ لبنانی شیعہ عالم دین علامہ محمد حسین فضل اللہ جو لبنان کے انتخابات میں سعودی عرب کی طرف سے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے پر شدید اعتراض کر چکے ہیں نے کل اوباما انتظامیہ کو لبنان میں مداخلت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ حزب اللہ لبنان نے بھی اعلان کیا ہے کہ بایڈن کا لبنان کا سفر اس ملک کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں کھلم کھلا مداخلت ہے۔ نبیہ بری کی قیادت میں "امل" کے اراکین نے بھی امریکی وفد کے اس سفر کو لبنان کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں 8 مارچ پارٹی کی کامیابی کے امکانات پر امریکی تشویش کی علامت جانا ہے۔ روزنامے "الاخبار" نے بھی لکھا ہے کہ امریکہ اس وقت یہ سمجھ رہا ہے کہ آنے والے انتخابات میں اپوزیشن کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں لہذا وہ ابھی سے ہی آنے والی صورتحال سے مقابلہ کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اسی طرح یہ اخبار لکھتا ہے کہ: "چونکہ صرف 10 سیٹیں ایسی ہیں جنکی صورتحال واضح نہیں ہے اور یہی 10 کرسیاں قومی اسمبلی کی اکثریت کو مشخص کریں گی لہذا لبنان میں آنے والے امریکی ڈپلومیٹس سعد حریری اور اسکے حلیفوں کو یہ راہنمای فراہم کرنے آئے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت کے حصول کی خاطر کیسے الیکشن لڑیں اور کون کونسے امیدواروں کو میدان میں اتاریں"۔ لبنان کی "الشعب پارٹی" کے سربراہ نجاح واکیم نے قومی اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر امریکی صدر کے مشیر کے دورہ لبنان کی مذمت کی ہے اور اسے قومی اسمبلی کے انتخابات میں امریکہ کی طرف سے بہت خطرناک اور بے شرمانہ مداخلت سے تعبیر کیا۔ البتہ کچھ سیاسی حلقوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ بایڈن کے اس سفر کا مقصد لبنانی حکام کو واشنگٹن کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اس بارے میں ڈیلی "البلد" لکھتا ہے: "جو بایڈن اپنے لبنان کے سفر میں نتن یاہو کی طرف سے الفجر گاوں سے اپنی عقب نشینی کے پیغام کو لائے ہیں جو وہ لبنانی صدر کو پہنچانا چاہتے ہیں"۔ یہ اخبار پچھلے ہفتے کے ہیلری کلنٹن کے سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: "امریکی عالی رتبہ حکام کے اس تعداد میں لبنان کے دورے بے سابقہ ہیں۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا جفری فیلٹمن کی طرف سے فواد سینیورہ کو لبنان کی قومی اسمبلی کے بعد الفجر گاوں سے اسرائیل کی عقب نشینی کا وعدہ پورا ہو گا یا نہ؟"۔
خبر کا کوڈ : 5498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش