0
Monday 25 May 2009 09:07

پاکستان اور ایران میں بھارت کے بغیر گیس پائپ لائن معاہدہ

پاکستان اور ایران میں بھارت کے بغیر گیس پائپ لائن معاہدہ
اسلام آباد: پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن سمجھوتے پر دستخط ہو گئے ہیں اس بات کا اعلان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کیا، انہوں نے کہا کہ ایران  یومیہ بنیاد پر 23ملین کیوبک میٹر گیس فراہم کریگا، ترجمان کا کہنا ہے کہ ایران معاہدے کے تحت پاکستان کو 25سال تک گیس فراہم کریگا، عبد الباسط نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ معاہدہ صرف پاکستان اور ایران کے درمیان ہوا ہم نے شروع سے کوشش کی تھی کہ بھارت کو بھی معاہدے میں شامل کیا جائے، لیکن اس معاہدے میں گنجائش ہے ،اگر بھارت چاہے تو اسے شامل کیا جاسکتا ہے، عبدالباسط نے کہا کہ تہران میں ہونیوالی تین ملکی کانفرنس میں سب سے بڑی پیش رفت یہ رہی ہے کہ فریم ورک مکمل Institulanalze ہو گیا اور اگلی سربراہ کانفرنس اگلے سال اکتوبر میں اسلام آباد میں ہو گی اس کے علاوہ ایک میکنزم بنا رہے ہیں جس کے تحت سیکورٹی اینرجی، ٹرانسپورٹیش کے شعبوں میں تعاون پر بات ہو گی۔ اس کے علاوہ تینوں ملکوں نے اتفاق کر لیا کہ ایران اور پاکستان میں افغان مہاجرین کیلئے بندوبست کیا جائے تاکہ وہ پر وقار طریقے سے اپنے وطن جاسکیں، امید ہے کہ جو فیصلے تہران میں ہوئے ان پر عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں عبد الباسط نے کہا کہ گیس پائپ لائن بلوچستان کے ذریعے پاکستان آئے گی اور گیس کی سپلائی بلوچستان سرحد سے ہی ہو گی اور افغانستان کے علاقے سے نہیں ہو گی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے ہیں ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ بنانے اور ترقی کے لئے قیام امن کے علاوہ بہت کچھ کرنا ہو گا۔ صدر نے کہا کہ پاکستان کو سرحدی سطح پر مشکلات کا سامنا ہے ، پاکستان اور افغانستان میں صورتحال خراب ہے، عالمی بحران کے سب سے زیادہ اثرات افغانستان اور پاکستان پر پڑے ہیں۔ صدر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کو بیروزگاری، جہالت اور غربت سمیت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا اور اس سلسلہ میں ہمارے متفقہ سکالرز اور دانشوروں کے نظریات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ صدر نے کہا کہ ہم اپنے ہمسایوں کو تبدیل نہیں کر سکتے ہمیں اپنے خطے کے مسائل مفاہمت کے ذریعے حل کرنا ہوں گے اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے مشترکہ جدوجہد کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ خطہ اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے اور ہم علاقے کے عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لئے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ صدر نے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور افغان صدر حامد کرزئی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ ہم مشترکہ، شفاف اور تاریخ کے امین  مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہمیں سہ فریقی تعاون کو فروغ دینا ہو گا۔ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے علاوہ غیر ملکی مداخلت کا سامنا ہے، معاشی بحران کے لئے مشترکہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، ایران پاکستان اور افغانستان کا دوسرا گھر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے علاوہ غیر ملکی مداخلت کا بھی سامنا ہے۔ احمدی نژاد نے کہاکہ ہم سب کو مل کر مستقبل کیلئے مشترکہ منصوبے بنانا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تینوں ملکوں کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے جس سے نکلنے کیلئے مشترکہ کوششیں اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایران، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تینوں ملکوں کے مذہب اور ثقافت کے مشترکہ ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن بھی مشترکہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں غیر ملکی افواج اپنے مفاد کیلئے موجود ہیں۔دریں اثناء اپنے خطاب میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ پاکستان،افغانستان اور ایران کو موجودہ صورتحال اور مشکلات سے نکلنے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے افعانستان پچھلے تیس سال سے حالت جنگ میں ہے ترقی اور استحکام کیلئے امن کا قیام ضروری ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور ایران ایک مذہب سے ہیں ہماری قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ،انہوں نے کہا کہ تینوں ملکوں کا آپس میں قومی سطح پر تعاون ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال بے حد مخدوش ہے، یہاں سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے افغان صدر نے کہا کہ افغانستان پچھلے تیس سال سے حالت جنگ میں ہے انہوں نے کہا کہ خطے کا مستقبل امن سے وابستہ ہے ترقی اور استحکام کیلئے امن کا قائم ہونا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں ہمسایہ ممالک کے درمیان اچھا تعاون ہوتا تو آج سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی۔ انتہا پسندی سے نمٹنے کیلئے ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہیں۔ دریں اثناء پاکستان، ایران اور افغانستان نے خطہ سے دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے اپنی ہر ممکن کوششوں کے گہرے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اتوار کو ایک روزہ سہ فریقی سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری مشترکہ اعلامیہ جس پر تینوں ملکوں کے صدور آصف علی زرداری، محمود احمدی نژاد اور حامد کرزئی کے دستخط ہیں، میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی بنیادی وجوہات کا خاتمہ کیا جائے گا کیونکہ دہشت گردی نہ صرف اسلام کی اصل روح کیخلاف ہے بلکہ یہ خطہ کے رسم و رواج اور روایات کیلئے بھی شدید خطرہ ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق تینوں ممالک نے خصوصی ایشوز پر باقاعدہ اور سلسلہ وار مذاکرات کے انعقاد کیلئے ایک میکنزم کے قیام پر بھی اتفاق کیا۔ ان مذاکرات میں تینوں ملکوں کے سینئر اہلکار، وزرائے خارجہ یا ریاستی سربراہ شرکت کرینگے۔ سہ فریقی اجلاس میں تینوں ممالک نے پارلیمانی، ثقافتی، ماہرین تعلیم اور دانشوروں پر مبنی وفود کے تبادلہ کی حوصلہ افزائی اور عوام کی سطح پر رابطوں کو بڑھانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق تینوں ممالک نے منشیات کی پیداوار اور اس کی سمگلنگ کو روکنے کیلئے تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا۔ اجلاس میں تینوں ممالک کے اداروں میں منظم جرائم، منی لانڈرنگ اور انسانی سمگلنگ پر معلومات کے تبادلہ اور اس کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی اتفاق رائے ظاہر کیا گیا۔ پاکستان، ایران اور افغانستان نے تینوں ممالک کے درمیان تجربات اور معلومات کے تبادلوں کے علاوہ خطے میں سماجی معاشی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے پر بھی اتفاق رائے کیا۔ توانائی، ٹرانسپورٹیشن، انڈسٹریز، کان کنی، زراعت اور ماحول سمیت مختلف شعبوں میں سہ فریقی معاشی منصوبے شروع کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق تینوں ممالک خطے میں تیل اور گیس اور بجلی کے نیٹ ورکس سمیت توانائی کوریڈور کے قیام کیلئے مل کر کام کریں گے۔ سہ فریقی معاشی، صنعتی، پلاننگ کمیشن اور چیمبرز آف کامرس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق علاقائی ترقیاتی پروگراموں میں تینوں ممالک کے نجی شعبوں کی شراکت داری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ تینوں ممالک نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ ای سی او کی دسویں سربراہ کانفرنس میں کئے گئے فیصلے کے مطابق 2015ء تک خطے میں آزادانہ تجارتی علاقہ کا قیام اولین بنیادوں پر مکمل کرنے کیلئے اقتصادی تعاون کونسل کے رکن ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ تینوں ممالک نے تعلیم، صحت، سپورٹس، کلچر اور آرٹ کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اعلامیہ کے مطابق تینوں ممالک نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں ایسے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے جس سے پناہ گزینوں کی باعزت رضا کارانہ طور پر واپسی ممکن ہو اور اس کیلئے عالمی برادری اور یو این ایچ سی آر سے بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔جبکہ صدر آصف علی زرداری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمود احمدی نژاد نے پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی، تجارت اور اقتصادی شعبے سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ دریں اثناء صدر مملکت آصف علی زرداری نے سہ فریقی اجلاس کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے ہمراہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید خامنہ ای سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دنیا بھر کے عوام میں ہم آہنگی کے فروغ ، امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر، تنازعہ فلسطین اور اسلامی ممالک کے دیگر مسائل کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملاقات میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اسلامی کانفرنس کو مزید مضبوط، فعال اور زیادہ متحرک بنایا جائے تاکہ چھوٹے موٹے مسائل کے حل کیلئے اس فورم کو استعمال کیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 5605
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش