1
0
Thursday 24 Feb 2011 16:34

مادری زبانوں میں تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں، سیمینار سے مقررین کا خطاب

مادری زبانوں میں تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں، سیمینار سے مقررین کا خطاب
کوئٹہ:اسلام ٹائمز۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لالہ رﺅف نے کہا ہے کہ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے بچوں کی صلاحیتیں بڑھتی ہیں اور وہ عملی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ باہر سے لائی گئی زبانوں کو پاکستان کی چاروں قومی زبانوں پر جبرا مسلط کیا گیا جس کے نقصانات آج پاکستانی قوم برداشت کر رہی ہے۔ ہر طرف نفرتیں اور افراتفری ہے۔ مادری زبان کو قومی زبان تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیشی عوام نے پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ یہ باتیں انہوں نے نیٹ ورک فار پیس اینڈ جسٹس کے زیر اہتمام عالمی یوم مادری زبان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی مادری زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کر لیا جائے تو چاروں صوبوں میں احساس محرومی ختم ہو جائے گی۔ اور ملکی سطح پر تمام بحرانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری امین اللہ کاکڑ نے کہا کہ مادری زبانوں میں تعلیم کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے پشتون قوم رحمان بابا اور پشتو زبان کے دیگر شعراء اور اسکالرز سے ناآشنا ہے۔ اسی طرح پنجابی، بلوچی زبان بھولنے والے کروڑوں نوجوان بھی اپنے کلچر اور قومی اسکالرز سے ناواقف ہیں۔ ہمارے بچے مرزا اسد اللہ خان  غالب وغیرہ تو کو جانتے ہیں۔ مگر اپنی مادری زبان کے قومی ہیرووں سے ناواقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام مادری زبانوں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام انسانوں کو دیا ہے۔
بی این پی مینگل کوئٹہ کے جنرل سیکرٹری خالد شاہ دلسوز نے کہا کہ مادری زبانوں میں تعلیم کے مواقع میسر نہ آنے کی وجہ سے چاروں قومیں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بجائے ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں میں تعلیم دینے کا فیصلہ جتنا جلد کر لیا جائے، قوموں کے درمیان دوریاں اتنی جلد ختم ہونگی اور بلوچستان میں احساس محرومی بھی ختم ہو جائے گی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے نیٹ ورک فار پیس اینڈ جسٹس کے کوارڈینیٹر نذر بڑیچ نے کہا کہ آج کے دن ریلیاں اور جلوس نکالنے والی سیاسی پارٹیاں اس وقت کہاں تھیں جب صوبائی اسمبلی میں مادری زبانوں میں تدریسی عمل کو روک دینے کا بل پاس کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں نے عوام کو تقسیم کیا ہے۔ یہی طریقہ حکومت آمر حکمرانوں کا بھی ہے۔ زبانوں کو صرف نعروں اور سیاست کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر مادری زبانوں سے کسی کو ہمدردی ہوتی تو آج بلوچستان سمیت خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں مادری زبانوں میں کم سے کم پرائمری سطح پر بچوں کو تعلیم کے حصول کا حق دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی اداروں کی ریسرچ کے مطابق مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والا بچہ کسی دوسری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کی نسبت سو فیصد زیادہ قابل اور ذہین ہوتا ہے۔ ہماری تنظیم نے مادری زبانوں کے فروغ اور نئی نسل کو اس طرف راغب کرنے کیلئے سمینار اور ریسرچ کے پروگرام شروع کیے ہیں۔ ہمارے دفتر کے دروازے ہر عام وخاص کیلئے کھلے ہیں۔ جو بھی مادری زبانوں سے محبت کرتا ہے اسے ہماری اس کوشش میں ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ نواب اکبر بگٹی شہید وہ واحد لیڈر تھے جنہوں نے بلوچستان میں بھولی جانے والی تینوں زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کروایا اور درسی کتب بھی شائع کروائی۔ دو سال تک بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق تمام بچوں کو دیا گیا۔ لیکن بد قسمتی سے جب مادری زبانوں میں تعلیم کے حق کو تسلیم کرنے کے عمل کو آئینی شکل دینے کی ضرورت پیش آئی تو صوبائی اسمبلی میں بیٹھی ہوئی قوم پرست پارٹیوں نے اس کی مخالفت کی۔ جس سے لاکھوں بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ دنیا میں قوموں کا وجود اپنی زبانوں سے وابستہ ہے۔ اگر ہم نے اپنی زبانوں کے فروغ کیلئے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تو ہماری زبانیں بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔
اس موقع پر پشتو زبان کے عبدالجبار کاکڑ نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹ ورک فار پیس اینڈ جسٹس کی کوئٹہ میں امن وامان کی بحالی اور عوام کے حقوق، جس میں مادری زبان میں تعلیم کا حق بھی شامل ہے، کیلئے جدوجہد قابل تحسین ہے۔ آج کی دنیا نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ زبانوں کو درپیش رکاوٹوں کو نوجوانوں نے ہی ختم کرنا ہے۔ آج ہم مادری زبانوں کے حوالے سے انتہائی درد ناک اور خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ زبان ایسا ہتھیار ہے جس سے ہم اپنی تاریخ کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہم نے اپنی زبانوں کو بھلا کر غیروں کی زبانوں کو اپنا لیا ہے۔ اسی وجہ سے اپنے آباﺅ اجداد کے کلچر  سے دور ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر عمر اصغر عرفان اور عہد آغا پرویز احمد نے اپنے خطاب میں مادری زبانوں کے فروغ کیلئے معاشرے اور میڈیا کے اشتراک کو ناگزیر قرار دیا۔
خبر کا کوڈ : 56182
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Parvez
Pakistan
آزاد ملک وچ ڄہڑی زبان لوکاں دی ہووے اوہو زبان قومی تے سرکاری زبان ہوندی ہے، قومی تے سرکاری زبان ہکا ہوندی ہے، اینکوں جمہوریت وی آہدے ہن، مقبوضہ تے غلام مُلکاں وچ عوام تے حکمراناں دی زبان وکھری ہوندی ہے۔ لوک آپݨی زبان کوں قومی آہدے ہِن۔ حکمران آپݨی زبان کوں قومی آہدے ہِن۔ حکمراناں دی زبان سرکاری تے دفتری زبان ہوندی ہے، تعلیم اکثر علاقائی زبان وچ زباناں وچ ہوندی ہے۔
حکومت پاکستان دے مطابق پاکستان دی علاقائی (تعلیمی)، قومی تے سرکاری زبان انگریزی ہے۔
پرائمری دے ہر ہر ٻال ، ہر چھوکری تے چھوکرے وچ بھلا ہک مادری زبان دے علاوہ بیاں کتݨان زباناں سکھݨ, لکھݨ،پڑھݨ، ٻولݨ تے سمجھݨ دی صلاحیت ھوندی اے؟ نوم چومسکی تے یونیسیف یونیسکو دے مطابق ٻالاں کوں صرف مادری زبان سکھاؤ۔
پاکستان دے متفقہ ١٩٧٣ دے آئین دی اٹھارویں متفقہ آئینی ترمیم دے سولاں سال د ی مفت تعلیم تے عمل موجودہ نظام وچ ممکن کائنی۔ تعلیم عام کرنڑ دی واحد صورت صرف اے ھے جو:
سکولاں کالجاں وچ تے سی ایس ایس وچ سرائیکی، پشتو تے سندھی کوں لازمی آپشنل مضمون بݨاؤ۔ سارے سکول، کالج تے مدرسے صرف ترائے قسماں دے ھوون۔
سرائیکی میڈیم،
پشتو میڈیم،
سندھی میڈیم۔
صرف ھک غیر ملکی زبان ناںویں کنوں شامل نصاب کرو۔
ہماری پیشکش