0
Monday 3 Oct 2016 21:11

اسرائیل اپنی تاریخ کے عظیم ترین بحران کا شکار ہو چکا ہے، سابق موساد چیف

اسرائیل اپنی تاریخ کے عظیم ترین بحران کا شکار ہو چکا ہے، سابق موساد چیف
اسلام ٹائمز- فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی "موساد" کے سابق سربراہ افرائیم ہالی (Ephraim Halevy) نے اسرائیلی اخبار ہارٹز کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک میں بہت جلد بڑے پیمانے پر انارکی اور فسادات پھیلنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا: "اسرائیل اس وقت اپنے قیام سے لے کر آج تک سب سے بڑے اور شدید بحران سے روبرو ہے۔ مجھے یاد نہیں ماضی میں ہم کبھی بھی آج کی طرح ایک ایسے طاقتور اور مضبوط لیڈر سے محروم ہوئے ہوں۔ جب ہم اسرائیل کے سیاسی میدان پر نظر دوڑاتے ہیں تو بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت یا اپوزیشن میں موجود 15 اعلی سطحی اور تجربہ کار افراد میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جو ملک کی نجات کیلئے مفید ثابت ہو سکے۔ ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام پارٹیاں کسی ایک شخص کے گرد جمع ہیں اور وہ ایک شخص ہی تمام فیصلے کرتا ہے"۔

موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالی نے کہا کہ مفید افرادی قوت جمع کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی سسٹم موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تل ابیب اس قابل نہیں رہا کہ مختلف موضوعات جیسے فلسطینیوں سے مذاکرات میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکے لہذا اب جو بھی مذاکرات کی میز پر آئے گا اس سے مذاکرات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ افرائیم ہالی نے کہا کہ محمد دہلان ایسے شخص ہیں جن سے اسرائیلی حکام مذاکرات کرنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص سے مذاکرات کئے جائیں جس نے ماضی میں اسرائیل کی سلامتی کے خلاف کوئی اقدام انجام نہ دیا ہو۔ انہوں نے اس موقف کے باوجود اس بات پر زور دیا کہ تل ابیب کو چاہئے کہ وہ حتی حماس کے اعلی سطحی رہنماوں جیسے خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ سے بھی گفتگو اور مذاکرات انجام دے۔ انہوں نے 2014ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے خلاف جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بینجمن نیتن یاہو نے اس وقت بڑے فخر سے کہا تھا کہ Defensive Edge Operation کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ حماس کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ کیا اگر حماس کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو یہ اسرائیل کی کامیابی تصور کی جائے گی؟

افرائیم ہالی نے کہا: "بعض سیاستدان یہ تصور قائم کئے ہوئے ہیں کہ اسرائیل پوری دنیا پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے قابل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی یا تو ملک سے نکال باہر کر دیے جائیں گے یا پھر آسمان پر چلے جائیں گے۔ ایک بات طے ہے، وہ یہ کہ اسرائیل کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں"۔ موساد کے سابق سربراہ نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا بھر سے مقبوضہ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی کا سلسلہ جاری نہ رہا تو یہ خطرہ موجود ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی اقلیت میں تبدیل ہو جائیں۔ انہوں نے اس خطرے کا اظہار کرتے ہوئے کہ اسرائیلی عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے مزید کہا: "مجھے امید ہے کہ ملک میں عوامی بغاوت شروع ہو جائے۔ عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور میں ابھی سے اس کی علامات کا مشاہدہ کر رہا ہوں"۔

افرائیم ہالی نے کہا کہ اسرائیلی عوام کے غم و غصے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتی فیصلے شدت پسند گروہوں کے زیر اثر ہیں۔ انہوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینجمن نیتن یاہو پر ان گروہوں کی جانب سے دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ہفتے کے دن تمام ٹرینوں کی آمدورفت پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس دن چھٹی کا اعلان کریں۔ موساد کے سابق سربراہ نے اپنے انٹرویو کے دوسرے حصے میں کہا کہ اس وقت حماس کمزور ہو چکی ہے لیکن اس کی کمزوری کی وجہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے خلاف جنگ کے دوران روزانہ 1500 ہوائی حملے نہیں بلکہ وہ اقدامات ہیں جو مصر نے اس گروہ کے خلاف انجام دیے ہیں۔ حماس کی کمزوری کی دوسری وجہ ایران سے اس کے تعلقات میں خرابی ہے۔ افرائیم ہالی نے کہا کہ اس کے باوجود حماس اب بھی بہت زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے اور تل ابیب کو چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کی تحریک آزادی کچلنے کیلئے حماس سے مذاکرات کے ذریعے سازباز کرے۔ انہوں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ایسی ریاست کے قیام کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے جس پر اسرائیلی اور فلسطینی مل کر حکومت تشکیل دیں؟ کہا کہ ایسا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں فلسطین اتھارٹی کا خاتمہ ضروری ہے اور فلسطینیوں کی تمام ضروریات کی ذمہ داری تل ابیب کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ افرائیم ہالی نے کہا کہ اس کام کیلئے ہمیں بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے لیکن ایسی حمایت ہر گز ہمیں حاصل نہیں ہو گی کیونکہ وہ پہلے سے ہی یورپ کی طرف مہاجرین کے سیلاب جیسے بحران کا شکار ہیں۔

موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالی نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ واحد ایسے شخص ہیں جو اسرائیل کی قیادت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے مسائل پیش آئے ہیں جن کے بارے میں نیتن یاہو نے واضح غلطیاں انجام دیں۔ مثال کے طور پر نیتن یاہو کا خیال تھا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مٹ رومنی کامیاب ہوں گے لہذا انہوں نے اسی وجہ سے مٹ رامنی کو شیلڈن ایڈلسن کے ہمراہ دعوت دی لیکن ان کا یہ تصور غلط ثابت ہوا۔ افرائیم ہالی نے بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے امریکی صدر براک اوباما سے دوری اختیار کرنے اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے قرابتیں بڑھانے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ روس ایران کی حمایت اور مدد میں مصروف ہے لہذا اس سے دوستی بڑھانا صحیح نہیں۔
خبر کا کوڈ : 572479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش