0
Saturday 26 Nov 2016 17:39

اہلسنت کے 50 سے زائد مفتیوں نے سندھ اسمبلی میں پاس ہونیوالے تبدیلی مذہب کے بل کو غیر شرعی قرار دیدیا

اہلسنت کے 50 سے زائد مفتیوں نے سندھ اسمبلی میں پاس ہونیوالے تبدیلی مذہب کے بل کو غیر شرعی قرار دیدیا
اسلام ٹائمز۔ تنظیم اتحادِ امت پاکستان کے چیئرمین محمد ضیاء الحق نقشبندی کی اپیل پر تنظیم کے شریعہ بورڈ کے 50 سے زائد مفتیان کرام نے سندھ اسمبلی سے منظور کرائے گئے بل کو جس میں کہا گیا ہے کہ ’’18 سال سے کم عمر کے مرووخواتین کا قبول اسلام معتبر نہیں اور 18 سال سے زائد عمر کا شخص 21 روز تک قبول اسلام کا اعلان نہیں کر سکتا جبکہ قبول اسلام کرانے والے یعنی کلمہ پڑھانے والے اور نکاح خواں کیلئے کم از کم 5 سال یا عمر قید کی سزا مقرر کی گئی اور بل کے مطابق کلمہ اور نکاح پڑھانے والے شخص کی مذکورہ مقدمہ میں ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی‘‘۔

مفتیان نے اس بل کو قرآن وسنت کی روشنی میں غیر اسلامی، غیر اخلاقی، غیر قانونی اور اخلاق باختہ قرار دیتے ہوئے اپنا شرعی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل جہاں شریعت مطہرہ کی روشنی میں غیر شرعی ہے وہی پر یہ بل آئین پاکستان، دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کے متصادم ہے۔ مفتیان کا کہنا ہے کہ اسلام کے نام پر بنائی گئی اسلامی مملکت کے اندر اس طرح کے بل کا پاس ہونا لمحہ فکریہ ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ آئین پاکستان میں یہ واضع طور پر لکھا ہوا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بنایا جا سکتا، لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے اور بل کی حمایت کرنیوالے فی الفور اللہ کے حضور توبہ استغفار کریں جبکہ وفاقی شرعی عدالت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس بل کے حوالے سے از خود نوٹس لے۔

مفتیان کرام نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256 کی روشنی میں واضع طور پر شرعی اعلامیہ میں کہا ہے کہ جبری مذہب کی تبدیلی شرعی طور پر درست نہیں۔ مفتیان کرام نے مزید خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل جہاں خود عدل وانصاف کو پامال کر رہا ہے وہی پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ مفتیان کرام نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اسلام کی ریسرچ اور قبول اسلام کے حوالے سے ادارے قائم کرتی تاکہ غیر مسلم لوگ وہاں آکر اسلام کے حوالے سے سوال وجواب کی نشست کریں ناکہ سندھ حکومت اسلام قبول کرنیوالوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس طرح کا بل انڈیا، امریکہ، مغرب، یورپ اور حتیٰ کہ اسرائیل میں بھی منظور نہیں کیا گیا۔


جن 50 سے زائد مفتیان کرام نے اجتماعی فتویٰ جاری کیا ہے ان میں مفتی پیر سید کرامت علی، مفتی ابوبکر اعوان، مفتی مسعود الرحمن، مفتی محمد سہیل قادری، مفتی محمد حسیب قادری، مفتی محمد کریم خان، ڈاکٹر مفتی محمد عمران انور نظامی، مفتی سیّد شہباز احمد شاہ، مفتی محمد قیصر شہزاد، علامہ مفتی محمد طاہر تبسم قادری، مفتی خلیل احمد یوسفی، مفتی گل احمد عتیقی، مفتی گلزار احمد نعیمی، مفتی انتخاب احمد نوری، مفتی محمد فیصل، مفتی محمد عبدالستار سعیدی، مفتی خضرالاسلام، مفتی محمد صادق فریدی، مفتی انوار علوی، مفتی محمد نعیم صابری، مفتی محمد ارشد نعیمی، مفتی محمد اعجاز فریدی، مفتی محمد ہاشم، مفتی محمد فیصل ندیم، مفتی مشتاق نعیمی، مفتی عرفان اللہ سیفی، مفتی حافظ عرفان اللہ، مفتی امتیاز احمد قادری، مفتی محمد اکمل، مفتی محمد رضوان، مفتی ضمیر احمد مرتضائی، مفتی اصغر حسین شاہ، مفتی حافظ محمد کوکب نورانی، مفتی محمد اسماعیل، مفتی نور احمد، مفتی حافظ شکور حسین، مفتی حافظ محمد رضوان، مفتی حافظ اسرار الٰہی، مفتی حافظ محمد وسیم، مفتی شہزاد احمد نقشبندی، مفتی حافظ محمد بلال فاروق، مفتی محمد امان اللہ شاکر، مفتی حافظ عرفان اللہ، مفتی لیاقت علی صدیقی، مفتی میاں غوث علی قصوری، مفتی محمد عارف نقشبندی، مفتی اللہ بخش محمدی سیفی، مفتی محمد ندیم قمر، مفتی محمد آصف نعمانی، مفتی محمد رضا کونین، مفتی محمد یٰسین محمدی سیفی، مفتی حبیب الرحمن مدنی، مفتی حافظ محمد عثمان نوشاہی، مفتی محمد وقاص سلطانی اور دیگر شامل ہیں۔
خبر کا کوڈ : 586726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش