0
Sunday 5 Mar 2017 17:20

شہید کے افکار پر عمل ہی ہماری طرف سے شہید کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا، افکار شہداء سیمینار

شہید کے افکار پر عمل ہی ہماری طرف سے شہید کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا، افکار شہداء سیمینار
اسلام ٹائمز۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 22ویں برسی کے موقع پر افکارِ شہداء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کے افکار پر عمل ہی ہماری طرف سے شہید کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا، ہمیں عمل کے میدان میں شہید کی راہوں پر چلنا ہے، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں ولائی افراد کی امیدوں کا مرکز ہے۔ سیمینار میں شہید کے رفقاء علامہ غلام شبیر بخاری، امجد کاظمی، علی رضا بھٹی، علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ غلام عباس رئیسی، صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سرفراز نقوی اور دیگر نے شرکت کی۔ مرکزی صدر سرفراز نقوی نے کہا کہ شہید نقوی کی شخصیت نوجوانوں کیلئے آئیڈیل ہے کہ انہوں نے اجتماعی و اسلامی ذمہ داریوں کے جذبے کو اس وقت فروغ دیا کہ جب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سوشلزم و کمیونزم جیسے نظریات کو فروغ دیا جا رہا تھا، شہید ڈاکٹر ملت کے نوجوانوں کو عظیم سرمایہ جانتے تھے اور ملت کی ترقی میں ان کے کردار سے بخوبی آگاہ تھے کہ جس ملت کے نوجوان بیدار متحرک اور فعال ہوں، وہ ملت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے مرکزی صدر نے کہا کہ شہید ایک اسلامی و انقلابی فکر کے حامل تھے، اس لئے ہمہ وقت اپنے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں اور ملت کیلئے فکر مند رہتے تھے اور اہل فکر افراد کی قدر کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ افراد سے زیادہ نقصان دہ عمل افکار کا قتل ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر نے اپنے فکر کی روشنیاں ملک بھر میں پھیلا دیں اور آج آئی ایس او کی شکل میں ان کی فکر پروان چڑھ رہی ہے، نوجوانان ملت شہید ڈاکٹر کی روح سے تجدید عہد کریں اور ان کے اوصاف کو اپناتے ہوئے آئندہ نسل کیلئے نمونہ عمل بنیں۔ مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ ان کٹھن حالات کے باوجود کثیر تعداد میں سیمینار میں سینکڑوں افراد شرکت شہید کی، آئیڈیالوجی سے عشق کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کو بائیس برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، اپنے شعبے سے انصاف کرنیوالے ایک انتھک ڈاکٹر، ایک بے مثال استاد، ایک شفیق دوست، ایک وطن دوست اور دشمن شناس انسان تھے، انہوں نے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ امریکہ پاکستان کو غلامی کی زنجیر میں باندھ کر اپنا دستِ نگر کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر نقوی نے اس وقت لوگوں میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ اور اس کی وجہ اجاگر کی، پاکستان کے دشمنوں نے اس آواز کو دبانے کی کوشش کی اور انہیں بے جرم و خطا دن دیہاڑے ایک مصروف ترین چوک پر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اور تجدید ِ عہد کیلئے ہر سال ان کی برسی منائی جاتی ہے، اور اس کا حق یہ ہے کہ ان کی انہیں افکار کو فروغ دیا جائے، جن کی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا۔

علامہ غلام عباس رئیسی نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی علماء کی سرپرستی میں رہے، اللہ کی رضا کی خاطر زندگی کا ہر لمحہ گزارا، شہید کی برسی ہم سے عمل کا تقاضا کرتی ہے، اپنے وقت اور مال کو خدا کی رضا کیلئے استعمال کی دعوت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی عمل کا نام ہے، شہید نے اپنے کردار سے جوانان کو نئی راہ دی، جوانوں کو شہید کے اثاثے، آئی ایس او پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، پاکستان میں تشیع جوانان کا مثبت ترین کردار کا سہرا شہید کے سر ہے۔ سابقہ مرکزی صدر ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی 22ویں برسی کے موقع پر ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہید ڈاکٹر کی یاد منانا قومیات کی بات کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر راشد عباس نقوی نے کہا کہ ڈاکٹر شہید ایک عملی شخصیت تھے، وقت کا ادارک کرتے ہوئے منصوبہ کرتے اور منصوبہ کو عملی جامہ پہناتے تھے، ڈاکٹر شہید کی برسی پر تمام کارکنان عزم کریں کہ شہید ڈاکٹر کو جو خامیاں پسند نہیں تھیں، جن میں شہرت، ریاکاری شامل ہے سے دور رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 615255
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش