0
Wednesday 8 Mar 2017 00:39

ڈونلڈ ٹرمپ یمن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے القاعدہ کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر گامزن

ڈونلڈ ٹرمپ یمن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے القاعدہ کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر گامزن
اسلام ٹائمز۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجودہ امریکی حکومت یمن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر القاعدہ کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اگرچہ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ امریکہ کو بیرون ملک فوجی سرگرمیوں سے باہر نکالیں گے اور اپنی تمامتر توجہ ملک کو درپیش اندرونی مسائل خاص طور پر معیشتی بحران پر مرکوز کر دیں گے لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ بھی سابقہ امریکی حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ کی آگ کو مزید ہوا دینے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پہلا قدم یمن سے اٹھایا جا رہا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے بقول صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یمن میں فوجی کاروائیوں کو مزید تیز کر دینے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ یہ کاروائیاں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے کی جائیں گی لیکن پشت پردہ حقائق کچھ اور ہی ثابت کرتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں کے دوران امریکہ کی جانب سے جنوبی یمن میں سرگرم القاعدہ دہشت گردوں کو فوجی سازوسامان اور اسلحہ پر مشتمل تین بڑی کھیپ پہنچا چکا ہے۔ روسی خبررساں ادارے سپوتنک کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یمن میں فوجی کاروائیاں تیز کرنے کا مقصد القاعدہ کی مدد کرنا ہے۔ امریکہ ایک طرف تو یمن میں القاعدہ کے خلاف جنگ کا دعوی کرتا ہے جبکہ دوسری طرف اس ملک کے بارے میں اپنائی جانے والی امریکی پالیسیاں انتہائی مشکوک نظر آتی ہیں۔ یمن کے بعض ذرائع ابلاغ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد کے ذریعے یمن میں سرگرم القاعدہ کو مضبوط کر رہا ہے۔ تعز نیوز کے ایک تجزیے میں اس امریکی اقدام کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف جارحیت کے آغاز کے چند ماہ بعد ہی قدرتی گیس اور تیل سے مالامال علاقہ "حضر موت" بغیر کسی مزاحمت کے القاعدہ کے سپرد کر دیا گیا جبکہ اسی دوران القاعدہ سے وابستہ 1884 قیدیوں کو جیل سے بھگا دیا گیا۔

تعز نیوز کے مطابق امریکہ کا مقصد یمن میں بدامنی اور جنگ کو فروغ دے کر اس ملک کی تقسیم کا زمینہ فراہم کرنا ہے۔ امریکہ عراق اور لیبیا میں اپنے تجربات یمن میں دہرانا چاہتا ہے۔ 2015ء میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ بھی اس دعوے کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ اگرچہ دہشت گرد گروہ القاعدہ اپنے اصلی اور اہم کمانڈرز سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے لیکن وہ یمن کے جنوبی اور مشرقی صوبوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں بہت حد تک کامیاب ہو چکا ہے اور اس ملک میں القاعدہ ایک مضبوط گڑھ بنا چکا ہے۔ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے: "جیل سے القاعدہ دہشت گردوں کو فرار کروانے کا مقصد یمن کے وسیع حصے میں اس دہشت گرد گروہ کے بیج بونا تھا تاکہ مناسب وقت پر تیار شدہ فصل کاٹی جا سکے اور اس طرح یمن میں فوجی مداخلت کا مناسب بہانہ فراہم ہو سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے عراق اور افغانستان میں کیا گیا تھا"۔ اسی طرح امریکی نیوز ویب سائٹ The Intercept نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے بعد اس ملک میں القاعدہ چار گنا زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔

دوسری طرف یمن کے سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی ڈرونز کی جانب سے یمن کی قومی خودمختاری کی مسلسل خلاف ورزی ایک طرح سے اس ملک پر امریکہ کے فوجی قبضے کے مترادف ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بغیر پائلٹ کے امریکی طیارے القاعدہ اور داعش سے مقابلے کے بہانے گذشتہ کچھ عرصے میں یمن کے صوبوں ابین، شیوہ اور البیضاء میں 30 سے زیادہ کاروائیاں انجام دے چکے ہیں۔ مزید برآں، ان صوبوں میں امریکی فوجی بھی ہیلی برن کے ذریعے داخل ہوئے ہیں۔ یمن کے خلاف امریکی ہوائی حملے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد مزید تیز ہو گئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن ایک بار پھر امریکہ کے نشانے پر آن چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ نے محسوس کیا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن کے خلاف جنگ میں ناکامی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یمن کی قومی نجات حکومت نے ملک میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غیرقانونی اور کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 616003
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش