0
Monday 13 Mar 2017 16:01

ہر کام ٹھیکے پر چل رہا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ٹھیکے پر دے دی جائیں، سپریم کورٹ

ہر کام ٹھیکے پر چل رہا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی ٹھیکے پر دے دی جائیں، سپریم کورٹ
اسلام ٹائمز۔ منچھر جھیل کے آلودہ پانی سے متعلق از کود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سب ٹیکس پر پل رہے ہیں مگر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، سارا کام ٹھیکے پر چل رہا ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی ٹھیکے پر دے دیں۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں منچھر جھیل میں گندے پانی کی آمیزش سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ سندھ حکومت کی جانب سے آر بی او ڈی پراجیکٹ سے متعلق وفاق اور صوبائی حکومت کی رپورٹ پیش گئی جس میں بتایا گیا کہ آر بی او ڈی پراجیکٹ وفاقی ادارے واپڈا کا منصوبہ ہے اور سندھ حکومت اس میں حصے دار ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے منچھر جھیل سے متعلق ٹاسک فورس بنالی گئی ہے۔ عدالت نے حکومت سندھ کے تشکیل کردہ ٹاسک فورس کا نوٹی فکیشن مسترد کردیا۔ جسٹس امیر ہانی کا کہنا تھا کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ نعیم احمد بخاری کےخلاف چارج شیٹ ہے جس شخص نے منچھر جھیل کو تباہ کیا اسے ٹاسک فورس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت میں صلاحیت نہیں، تعلقات کی بنیاد پر عہدے ملتے ہیں، ڈی جی انوائرمینٹل عوام کے ٹیکس کے پیسے مفت بیٹھ کر کھا رہے ہیں، قتل ایک آدمی کا ہوتا ہے، یہ شخص پورے سندھ اور کراچی کے کروڑوں لوگوں کا قتل کر رہا ہے، ڈی جی انوائرمینٹل نااہل ترین شخص ہے حکومتی نااہلی پر صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس میں قابل، باصلاحیت اور ماہرین شامل کئے جائیں اور ٹاسک فورس میں شامل ڈی جی انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی نعیم بخاری کو نکالا جائے۔ عدالت نے ٹاسک فورس دوبارہ تشکیل دے کر جمعرات تک رپورٹ طلب کر لی۔

عدالت میں واپڈا حکام اور ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف پیش کیا کہ سندھ حکومت اپنے حصے کے فنڈز دینے کو تیار نہیں۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ نے عدالت کو بتایا کہ پراجیکٹ میں سندھ حکومت حصے دار ہے۔ عدالت نے آر بی او ڈی پراجیکٹ پر 16 سال سے مکمل نہ ہونے اور منچھر جھیل میں گندے پانی کی آمیزش کا حل نہ نکالنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ وفاق اور سندھ دونوں حکومتیں کام کرنے کو تیار نہیں، منچھر جھیل آلودگی سے تباہ ہورہی ہے لیکن یہ طے نہیں ہو پایا کہ منصوبہ کس کا ہے، سب ٹیکس پر پل رہے ہیں مگر کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، سارا کام ٹھیکے پر چل رہا ہے تو وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی ٹھیکے پر دے دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ منصوبے میں وفاقی و صوبائی حکومت کے درمیان تنازع لگتا ہے، یہ ہمارا کام نہیں کہ دو حکومتوں کا تنازعہ حل کریں، آئین میں تنازعے کا حل موجود ہے، فوجی آمروں کے دور میں من مانی ہوتی ہے، جمہوری دور میں آئین کے ذریعے حل نکالا جاتا ہے، یہ وفاق اور صوبے کے مابین عدم تعاون کی بدترین مثال ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ بااثر افراد کی جھیلوں میں گندا پانی کیوں نہیں ڈالا جاتا، ہمت ہے تو وہاں گندا پانی ڈال کر دکھائیں، اگر ایک ماہ میں مسئلہ حل نہ ہوا تو وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کو بلائیں گے۔ عدالت نے تنازعہ ختم کرنے کیلئے دونوں حکومتوں کو ایک ماہ کی حتمی مہلت دے دی۔
خبر کا کوڈ : 617794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش