0
Sunday 26 Mar 2017 12:47

ولادت سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کی مناسبت سے اصغریہ علم و عمل تحریک کے زیر اہتمام یوم خواتین کا انعقاد

ولادت سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کی مناسبت سے اصغریہ علم و عمل تحریک کے زیر اہتمام یوم خواتین کا انعقاد
اسلام ٹائمز۔ اصغریہ علم و عمل تحریک (خواتین) پاکستان کی طرف سے سندھ کے ضلع نواب شاہ میں یوم خواتین بسلسلہ ولادت سیدہ النسا عالمین (س) منایا گیا، جلسہ عام سے تحریک کے چیئرمین انجینئر سید حسین موسوی، مرکزی صدر ثابت علی ساجدی اور سیدہ معصومہ موسوی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر خواتین، بچوں سمیت شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے حسین موسوی نے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء (س) نے شادی کے بعد جس نظام زندگی کا نمونہ پیش کیا، وہ طبقہ نسواں کیلئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے، آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں، جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا، یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہؑ، لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لئے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی، ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا (ص) سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی، تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی، جو تسبیح فاطمہ زہرا (س) کے نام سے مشہور ہے، 34 مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله، حضرت فاطمہ (س) اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کر دی، بعد میں رسولؐ نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی، جو فضہؑ کے نام سے مشہور ہیں۔

حسین موسوی نے کہا کہ جناب سیّدہ (س) اپنی کنیز فضہؑ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں، بلکہ ان سے دوست برابر جیسا سلوک کرتی تھیں، وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں، اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں، بیکار نہ بیٹھیں، مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے، اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ (س) نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا، گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا (س) انجام دیتی تھیں۔ حسین موسوی نے مزید کہا کہ اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے، لہٰذا حضرت فاطمہ زہرا (س) نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا، لیکن جب کبھی پیغمبرؐ میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم (س) ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہؑ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں، وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے، جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں، ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہراؑ نصرت اسلام کیلئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع، کیونکہ یہ ایک پُرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔

جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سیدہ معصومہ موسوی نے کہا کہ آپ کا بچپن اور تربیت اس طرح تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری (س) کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ (س) کی وفات ہو گئی، ماں کی آغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا، جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب و تاب میں اضافہ کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا، پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا، اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسولؐ کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں، کبھی اپنے باباؐ کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر گندگی ڈال دیی، کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں، مگر اس کمسنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم (س) نہ ڈریں، نہ سہمیں، نہ گھبرائیں، بلکہ اس کم عمری میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

تحریک کے مرکزی صدر ثابت علی ساجدی نے کہا کہ دنیا میں عظیم ترین خاتون سیدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں، حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف و کمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول اکرام (ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ انہوں نے کہا کہ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے، تو سب سے آخر میں سیدہ فاطمہ زہرا (س) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہ زہرا (س) سے ملنے کے لئے جاتے تھے۔ مرکزی صدر کا مزید کہنا تھا کہ عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ زہرا (س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے، رسول اللہ (ص) کا یہ برتاؤ سیدہ فاطمہ زہرا (س) کے علاوہ کسی دوسری شخصیت کے ساتھ نہ تھا۔
خبر کا کوڈ : 621628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش