0
Saturday 22 Apr 2017 13:53

سعودی عرب کیجانب سے اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے حوالے سے باقاعدہ درخواست موصول نہیں ہوئی، آئی ایس پی آر

سعودی عرب کیجانب سے اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے حوالے سے باقاعدہ درخواست موصول نہیں ہوئی، آئی ایس پی آر
اسلام ٹائمز۔ ایک طرف سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف جمعہ (21 اپریل) کو حکومت کی جانب سے خاموشی سے کلیئرنس ملنے کے بعد 41 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کے کمانڈر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کی غرض سے سعودیہ عرب کے لیے روانہ ہوئے، وہیں دوسری جانب پاک فوج کا کہنا ہے کہ ریاض کی جانب سے اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے حوالے سے باقاعدہ درخواست موصول نہیں ہوئی۔ جنرل (ر) راحیل شریف کو لینے کے لئے سعودی حکومت کی جانب سے ایک خصوصی طیارہ لاہور بھیجا گیا تھا، جو انہیں لے کر ریاض روانہ ہوا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لئے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی مشاورت سے قانون کے مطابق این او سی جاری کیا گیا۔ جنرل راحیل شریف کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہوئی، تاہم سعودی سربراہی میں اسلامی فوج کی کمان سنبھالنے کے ان کے فیصلے کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مذکورہ اسلامی فوجی اتحاد سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان کے ذہن کی پیداوار تصور کیا جاتا ہے، جسے بظاہر دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ترتیب دیا گیا، تاہم اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ اتحاد مشرق وسطٰی کے سیاسی تنازعات میں الجھ کر رہ جائے گا۔ اس تاثر کو اُس وقت تقویت ملی، جب حال ہی میں سعودی وزیر دفاع کے مشیر میجر جنرل احمد عسیری نے وال اسٹریٹ جنرل کو بتایا کہ مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے مقاصد صرف عالمی دہشت گرد دولت اسلامیہ یا القاعدہ کے خلاف لڑنے تک مخصوص نہیں ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فوجی اتحاد رکن ممالک میں باغیوں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ اس اسلامی فوجی اتحاد میں ایران، عراق اور شام کے شامل نہ ہونے پر بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ یہ اتحاد خطے میں ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے فرقہ وارانہ طاقت کے مظاہرے سے زیادہ نہیں ہوگا۔

ایران نے پاکستان کی جانب سے اس اتحاد کی سربراہی کرنے کے حوالے سے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد پاکستانی حکام نے ذاتی اور دو طرفہ ملاقاتوں میں تہران کو اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ جنرل (ر) راحیل شریف ایرانی مفادات کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ اس فوجی اتحاد کے ڈھانچے اور حتمی شرائط کا اعلان رکن ممالک کے وزرائے دفاع کی آئندہ کانفرنس کے دوران کیا جائے گا اور اسی دوران رکن ممالک کی اس میں شراکت بھی طے کی جائے گی۔ اس اسلامی فوجی اتحاد کو رکن ممالک کے وزرائے دفاع پر مشتمل ایک کونسل چلائے گی، جبکہ اس کا مشترکہ کمانڈ سینٹر ریاض میں قائم ہوگا۔ واضح رہے کہ حکومت نے سینیٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ جنرل (ر) راحیل شریف کو این او سی جاری کرنے کے حوالے سے ایوان کو پہلے سے بتایا جائے گا، تاہم اس پر عمل نہیں کیا گیا اور این او سی کے حوالے سے اعلان اُسی وقت کیا گیا، جب جنرل (ر) راحیل شریف روانگی کے لئے بالکل تیار تھے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور فوج نے اس پورے معاملے کو انتہائی خفیہ رکھا۔

وال اسٹریٹ جنرل نے اس سے قبل پاکستانی عہدیداران کے حوالے سے بتایا تھا کہ ریاض کے دباؤ پر اس کا قریبی اتحادی پاکستان 5 ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک علیحدہ فورس سعودی عرب کو فراہم کرے گا، تاکہ اس کی جنوبی سرحدوں کی حفاظت کی جاسکے، جو یمن کے ساتھ لگتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اضافی فوجیوں کی یہ تعیناتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ کئے گئے وعدوں میں سے ایک ہوگی۔ واضح رہے کہ 1982ء میں کئے گئے ایک دو طرفہ معاہدے کے تحت پاکستان نے پہلے ہی 1،180 فوجی سعودی عرب بھیج رکھے ہیں، جو وہاں ٹریننگ اور ایڈوائزری کے شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تاہم پاک فوج کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے اضافی افواج کی تعیناتی کے لئے باقاعدہ درخواست نہیں کی۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ڈان کو بتایا، ابھی تک دستوں کی تعیناتی کے لئے باقاعدہ درخواست موصول نہیں ہوئی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر (اضافی) دستوں کو بھیجا گیا تو وہ سعودی عرب سے باہر تعینات نہیں کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے لئے سعودی عرب نے پاکستان سے اپنے فوجی دستے بھیجنے کو کہا تھا، تاہم اندرونی دباؤ کے باعث حکومت نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور ریاض کی درخواست کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا تھا کہ افواج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کے حوالے سے بات چیت اعلٰی درجے کے مراحل میں تھی۔
خبر کا کوڈ : 629855
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش