0
Wednesday 26 Apr 2017 23:03

کراچی ایئرپورٹ پر دہشتگرد حملے کی تحقیقات رکاوٹوں کا شکار

کراچی ایئرپورٹ پر دہشتگرد حملے کی تحقیقات رکاوٹوں کا شکار
ترتیب و تدوین: ایس جعفری

8 جون 2014ء کی شب کراچی ایئر پورٹ پر ہونے والے دہشتگرد حملے کی تحقیقات اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کے سبب رکاوٹ کا شکار ہے، حملے میں ہلاک ہونے والے 10 عسکریت پسندوں کی ڈی این اے رپورٹس، جو 5 ماہ قبل دی جانی تھی، تاحال وصول نہیں ہوسکی، تاخیر نہ صرف تحقیقات کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ ایک انہتائی ہائی پروفائل دہشتگردی کے واقعے کے تفتیشی عمل کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی پر ہونے والے دہشتگرد حملے کی تحقیقات اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کے سبب رکاوٹ کا شکار ہوچکی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق حکام اور ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے 10 عسکریت پسندوں کی ڈی این اے رپورٹس، جو انہیں 5 ماہ قبل دی جانی تھی، تاحال وصول نہیں ہوسکی۔ تحقیقات میں یہ تاخیر نہ صرف متعلقہ اداروں کے غیر پیشہ وارانہ رویئے اور رابطوں میں فقدان کو واضح کرتی ہے، بلکہ اس سے پاکستان کی حالیہ تاریخ کے ایک ہائی پروفائل دہشتگردی کے واقعے کی تحیقیقات کو مکمل نہ کرنے میں اداروں کی عدم دلچسپی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کراچی پولیس نے اس خطرناک حملے کی تحقیقات کا دوبارہ آغاز نومبر 2016ء میں اس وقت کیا تھا، جب انہیں اس بات کا علم ہوا تھا کہ حملے میں ملوث تمام دہشتگرد غیر ملکی نہیں تھے، بلکہ ان میں کچھ کراچی کے رہائشی بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ 2014ء میں کراچی ایئر پورٹ کے حج ٹرمینل پر ہونے والے دہشتگرد حملے میں ایئر پورٹ سکیورٹی فورسز، پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت 25 افراد ہلاک، جبکہ 18 زخمی ہوگئے تھے۔

سکیورٹی فورسز نے خودکار اسلحہ، دستی بم اور راکٹ لانچر سے لیس دہشتگردوں کا صفایا کیا تھا، جبکہ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں ہلاک ہونے والے نامعلوم حملہ آوروں (جن کا تعلق وسطی ایشیاء سے ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا) کی لاشوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے نمونے حاصل کرنے کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بعد ازاں کراچی میں کاؤنٹر ٹیرراز ڈیپارٹمنٹ کی کارروائی کے دوران کالعدم دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی (نعیم بخاری گروپ) کے دہشتگردوں اسحٰق بوبی، الیاس بوبی اور عاصم کیپری کی گرفتاری کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہلاک ہونے والے 10 دہشتگردوں میں سے 2 کا تعلق کراچی سے تھا، انہوں نے کہا کہ اسحٰق بوبی، الیاس اور عاصم کیپری کو امجد صابری قتل کیس سمیت 28 ہائی پروفائل کیسز میں شمولیت پر گرفتار کیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق دہشتگرد اسحٰق بوبی نے پولیس کو بتایا تھا کہ کراچی ایئر پورٹ حملے میں ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں اس کا بہنوئی ماجد اور دوست حشام بھی شامل تھا۔

جس کے بعد پولیس نے ضلع ملیر کے جوڈیشل مجسٹریٹ سے رابطہ کیا اور ان سے حملہ آوروں کی قبر کشائی کی اجازت حاصل کی، جس کے بعد 22 نومبر 2016ء کو جوڈیشل مجسٹریٹ اور پولیس کی نگرانی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے مواچھ گوٹھ قبرستان سے 10 دہشتگرد حملہ آوروں کی قبر کشائی کی گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاشوں سے اکٹھے کئے گئے نمونوں کو لاہور کی فرانزک لیبارٹری بھیجا گیا، جہاں سے ایک یا دو ہفتے کے دوران ڈی این اے کی رپورٹس موصول ہو جانی تھیں، تاہم 4 ماہ گزرنے کے باوجود بھی یہ عمل مکمل نہ ہوسکا، پولیس اب بھی رپورٹ کے انتظار میں ہے کہ ان دہشتگردوں کی شناخت کی تصدیق کرکے تحقیقات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پولیس حکام کے مطابق متعلقہ لیبارٹری کو یاد دہانی بھی کرائی گئی، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، ایسے معاملات بہت اہم ہوتے ہیں اور ان میں تاخیر نہ صرف تحقیقات کی رفتار پر اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ تفتیشی عمل کو بھی متاثر کرتی ہے۔ خطرہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے انتہائی ہائی پروفائل دہشتگردی کے واقعات کی طرح یہ اس واقعے کے حقائق پر بھی پردے ڈال کر سہولت کاروں کو بے نقاب ہونے سے بچا لیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 631179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش