0
Friday 28 Apr 2017 09:46

کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی لگنا نئی بات نہیں، ریاض ملک

کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی لگنا نئی بات نہیں، ریاض ملک
اسلام ٹائمز۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی حالیہ کشیدہ صورت حال اور اس کے بعد وادی میں انٹرنیٹ سروس کی بندش کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کشمیری صحافی ریاض ملک کا کہنا تھا کہ کشمیر میں سوشل میڈیا پر پابندی لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے، 2008ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد وقفے وقفے سے انٹرنیٹ سروس بند ہوتی رہی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ریاض ملک نے کہا کہ گذشتہ روز 22 ویب سائٹس اور آج مزید 10 ویب سائٹس پر پابندی لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔ کشمیری صحافی کے مطابق اس عمل سے کشمیر میں مظالم کے خلاف بلند ہونے والی آواز کو کشمیر تک ہی محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بھارت کی پھرپور کوشش ہے کہ کشمیریوں کی آواز کو بین الاقوامی سطح پر بلند نہ ہونے دیا جائے۔

ریاض ملک کا کہنا تھا کہ بھارت خود کو جمہوری ملک کہتا ہے جبکہ جمہوریت میں آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا عمل کا اہم حصہ ہے اس پر پابندی لگانے سے وقتی طور پر نوجوانوں کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے لیکن اس پر ایک خطرناک ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے۔ کشمیری صحافی نے مزید کہا کہ کشمیر کی نوجوان نسل 90 کی دہائی میں شروع ہونے والی مسلح تحریک کے سائے میں جوان ہوئی ہے اس لیے انھوں نے ایک غیر یقینی صورتحال کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ریاض ملک کے مطابق اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں تو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے کیوں کہ یہاں کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ اس نظام سے بیزار آچکے ہیں اور اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انتظامیہ نے خطے میں کشیدگی بڑھنے کے بعد انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا سروسز بلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق مقامی حکومت کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ملک اور سماج مخالف عناصر ان سروسز کا غلط استعمال کر رہے تھے اس لیے امن عامہ کے مفاد میں ان سروسز کو ایک ماہ یا غیر معینہ مدت کے لیے بند کیا گیا۔ اگرچہ غیر مستحکم وادی کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ کے سگلنلز آئے روز بلاک کیے جاتے ہیں، لیکن کشمیری حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا سروسز پر پابندی کا اقدام پہلی بار سامنے آیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 631518
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش