0
Monday 22 May 2017 17:32
اسلامی جمہوری ایران دہشتگردی مخالف جنگ میں سب سے آگے ہے

جو لوگ دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں، وہ دہشتگردوں کیخلاف جنگ کا دعویٰ نہیں کرسکتے، ڈاکٹر حسن روحانی

حزب اللہ لبنانی عوام کا قابل اعتماد گروہ اور ایک سیاسی جماعت ہے، جسکے پارلیمنٹ اور حکومت میں نمائندے ہیں
جو لوگ دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں، وہ دہشتگردوں کیخلاف جنگ کا دعویٰ نہیں کرسکتے، ڈاکٹر حسن روحانی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے دہشت گردی کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دعووں کو غلط اور جھوٹا قرار دیا ہے۔ ایرانی صدر نے دوسرے دور کے لئے منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی بین الاقوامی پریس کانفرنس میں اپنی آئندہ چار سالہ حکومت کی ترجیحات بیان کیں۔ انہوں نے اپنے ابتدائی خطاب میں کہا کہ ایران کے عوام نے حالیہ صدارتی انتخابات میں دنیا والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم مشترکہ تعاون و مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں، علاقے اور دنیا کی ترقی و پیشرفت باہمی تعاون و ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے انتخابات کا پیغام قومی اتحاد اور بین الاقوامی مفاہمت ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں ایران کے موقف کو صراحت کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں دہشت گردی سے متعلق امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دعووں کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔ ایرانی صدر مملکت نے ایک غیر ملکی نامہ نگار کی جانب سے ریاض اجلاس میں امریکی صدر کی طرف سے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کئے جانے اور خود ریاض اجلاس کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے خیال میں ریاض اجلاس ایک نمائشی اجلاس تھا اور اس میں کوئی سیاسی اور عملی بصیرت کا مظاہرہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اس سے پہلے بھی اس طرح کا نمائشی اجلاس کر چکا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس طرح کا اجلاس انعقاد کرنے اور ایک سپر پاور کو ایک قوم کا پیسہ دینے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، کہا کہ اس علاقے میں جو دہشت گردی کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے، وہ عراق، شام اور لبنان کے عوام ہیں اور ایران کے عوام نے بھی اپنے سفارتکاروں اور فوجی مبصرین کے ذریعے عراق اور  شام کے عوام کی مدد کی اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کوئی ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ ایران کے بغیر علاقے میں امن قائم ہو جائے گا۔؟ انہوں نے کہا کہ شام اور عراق کے عوام نے دہشت گردوں کو شکست دی اور ایران، حزب اللہ اور روس ان کے شانہ بشانہ تھے، لیکن باقی حکومتوں نے کیا کیا۔؟ انہوں نے سوال کیا کہ کون لوگ دہشت گردوں کو پیسے دے رہے ہیں؟ ایرانی صدر نے کہا کہ جو لوگ دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں، وہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں امریکی حکام کے دعووں پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ امریکی عوام دہشت گردی کے مخالف ہوسکتے ہیں، لیکن امریکی حکام دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حامی رہے ہیں اور امریکہ نے بھی کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں کی ہے۔

انہوں نے حزب اللہ کے بارے میں ریاض اجلاس میں امریکی صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ، لبنانی عوام کا قابل اعتماد گروہ اور ایک سیاسی جماعت ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت میں جس کے نمائندے ہیں۔ ایرانی صدر نے ایسویسی ایٹیڈ پریس کے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکیوں نے گذشتہ چالیس برسوں کے دوران ہمیشہ ایران کے خلاف سازشیں کی ہیں اور معاندانہ اقدامات انجام دیئے ہیں۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ امریکہ نے اس خطے کے بارے میں ہمیشہ غلط اقدامات کئے ہیں۔ افغانستان پر چڑھائی سے لیکر یمن اور شام کے بحران تک ہر معاملے میں امریکہ نے غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے ایسویسی ایٹیڈ پریس کے نمائندے کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر امریکہ نے اس دوران کوئی صحیح کام انجام دیا ہو تو بتایا جائے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے ایک اور صحافی کے سوال کے جواب میں خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جنگ و خونریزی اور دہشت گردی کی حمایت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے حامیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ دہشت گردوں کے ذریعے اپنے اہداف پورے کرنے کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا کو مل کر اور متحد ہو کر جنگ کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دہشت گردی مخالف جنگ میں سب سے آگے ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران پر تنقید پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطٰی میں استحکام تہران کی مدد کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق چند روز قبل انتخاب کے ذریعے ایران کے دوبارہ صدر منتخب ہونے والے حسن روحانی نے رواں ہفتے سعودی عرب میں منعقدہ اس اسلامی کانفرنس کو بھی، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی، یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ ایک رسمی تقریب تھی، جس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی نتائج نکلیں گے۔ نیوز کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ علاقائی استحکام ایران کے بغیر بحال ہوسکتا ہے؟ کون یہ کہہ سکتا ہے کہ ایران کے بغیر خطے میں مکمل طور پر استحکام ہوگا؟ حسن روحانی نے کہا کہ گذشتہ ہفتے کے انتخابی نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی عوام ملک میں مزید جمہوریت اور دنیا سے روابط چاہتے ہیں، جس سے اقتصادی ترقی حاصل ہوگی۔ ایرانی صدر نے امریکہ سے تعلقات کو ایک خمدار سڑک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران یہ جاننے کا منتظر ہے کہ ڈونلڈ انتظامیہ آخر چاہتی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام انتظار کر رہے ہیں کہ امریکی حکومت کب مہذب بنتی ہے اور امید ہے کہ معاملات جلد حل ہو جائیں گے، جس کے بعد ہم کوئی درست فیصلے کرسکیں گے۔ حسن روحانی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کو نمائشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی سیاسی یا عملی اہمیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ سپر پاورز کو دولت دے کر حل نہیں ہوسکتا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق حسن روحانی نے کہا کہ تہران اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی قوم طاقتور بننے کا فیصلہ کرچکی ہے، ہمارے میزائل دفاع اور امن کے لئے ہیں، امریکی حکام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب بھی ہمیں میزائل کے تکنیکی تجربے کی ضرورت ہوگی، ہم کریں گے اور اس کے لئے ان کی اجازت کا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے ایران کے روایتی حریف سعودی عرب کو بھی جمہوری اقدار کی کمی پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریاض پر زور دیا کہ وہ اپنے عوام کو آزادانہ انتخابات کے ذریعے ان کی قسمت کا خود فیصلہ کرنے دیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں ہونے والی پہلی امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایک بار پھر ایران پر حملہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ تہران فرقہ وارانہ فسادات اور دہشت گردی کے لئے ایندھن فراہم کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سامنے ایران کو عالمی تنہائی کے شکار کرنے کی بات بھی کی۔ بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکی صدر پر زور دیا ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ انہوں نے نائن الیون جیسے ایک اور حملے سے بچنے کے لئے سعودی عرب سے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز کیا۔ خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق جواد ظریف نے اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خطے سمیت اپنے دوست مغربی ممالک میں دہشت گردی روکنے اور نائن الیون جیسے حملوں سے بچنے کے لئے مذاکرات کرنا لازمی تھے۔
خبر کا کوڈ : 639446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش