0
Sunday 4 Jun 2017 11:02

چیف ایپلیٹ کورٹ میں اہل وکیل کو جج نہیں لیا گیا تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، احسان ایڈووکیٹ

چیف ایپلیٹ کورٹ میں اہل وکیل کو جج نہیں لیا گیا تو سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے، احسان ایڈووکیٹ
اسلام ٹائمز۔ سپریم اپیلیٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن احسان علی ایڈووکیٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسداللہ ایڈووکیٹ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ میں جج کی خالی نشت پر بار سے اگر کسی اہل وکیل کو جج نہیں لیا گیا تو وکلاء عدالت عظمٰی میں کسی طور بھی پیش نہیں ہوں گے اور حکومتی فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کریں گے۔ جمعہ کے روز گلگت پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم اپیلیٹ کورٹ بار کے صدر احسان علی ایڈووکیٹ، سینئر نائب صدر جاوید اقبال، ہائی کورٹ بار کے صدر اسداللہ ایڈووکیٹ ،جنرل سیکریڑی مظفرالدین و دیگر عہدیداروں نے کہا کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ میں جج کی خالی نشت پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایماء پر مانسہرہ کے کسی وکیل کا نام سمری میں شامل کیا گیا ہے جبکہ گورننس آرڈر کے خلاف چیف کورٹ کے چیف جسٹس کا نام بھی سمری میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ان دونوں شخصیات کو کسی بھی صورت میں سپریم اپیلیٹ کورٹ میں بطور جج تعیناتی قبول نہیں کریں گے اور فیصلہ کن احتجاج کریں گے۔ مقامی وکلاء کو نظرانداز کرکے حکومت نے اگر من پسند افراد کو پراشوٹ کے ذریعے تعینات کرنے کی کوشش کی تو جی بی کے تمام وکلاء خاموش نہیں رہیں گے اور دونوں بار ایسوسی ایشنز حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کریں گے۔
 
ایک سوال پر بار ایسوی ایشنز کے عہدیداروں نے کہا کہ سپریم اپیلیٹ میں سینکڑوں ایسے مقدمات تصفیہ طلب ہیں، جن پر چیف کورٹ نے فیصلے صادر کئے ہیں۔ اگر چیف کورٹ کے چیف جسٹس کو بطور سپریم اپیلیٹ کورٹ کا جج مقرر کیا تو وہ اپنے دئیے ہوئے فیصلوں کی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔ اس لئے عدالت عظمٰی ماضی کی طرح مفلوج ہوکر رہے گا اور جج صرف تنخواہ لینے کی حد تک محدود رہیگا۔ بار کے عہدیداروں نے کہا کہ پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 175 A کے تحت اعلٰی عدلیہ میں ججوں کی میرٹ پر تقرری کے لئے باقاعدہ ایک جوڈیشل کمیشن قائم ہے۔ جس کے تحت سپریم اپیلیٹ کورٹ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، پارلیمنٹ کے حکومتی و اپوزیشن ممبران اور پاکستان بار کونسل کے نمائندوں پر مشتمل کمیشن جانچ پڑتال کے بعد ججوں کی تقرری کی منظوری دیتا ہے۔ مگر جی بی میں چیف کورٹ اور سپریم اپیلیٹ کورٹ میں ججوں کی تقرری حکومت وقت کے صوابدید پر رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ میں جسٹس شہباز خان مرحوم کی جگہ خالی نشت پر حکومت نے حال ہی میں اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے مانسہرہ کے کسی وکیل کا نام سمری میں شامل کیا ہے۔ گلگت بلتستان کے وکلاء برادری کو نظر انداز کرتے ہوئے گورننس آرڈر کے خلاف چیف کورٹ کے چیف جسٹس کا نام بھی سمری میں شامل کیا ہے، جس پر جی بی کے تمام وکلاء برادری سراپا احتجاج ہیں۔
خبر کا کوڈ : 642742
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش