0
Monday 19 Jun 2017 13:10

کوئٹہ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کے اراکین اسمبلی آپس میں الجھ پڑے، تلخ جملوں کا تبادلہ

کوئٹہ، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کے اراکین اسمبلی آپس میں الجھ پڑے، تلخ جملوں کا تبادلہ
اسلام ٹائمز۔ اتوار کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث ہوئی۔ اس موقع پر اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی میر خالد لانگو کا کہنا تھا کہ میں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں کا حق ادا کیا ہے۔ یہ پی اینڈ ڈی بلوچستان نہیں بلکہ یہ پی اینڈ ڈی صرف برائے قلعہ عبداللہ اور ژوب ہے۔ انہوں نے اگلے مالی سال کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ قلعہ عبداللہ کو 3 ہزار ملین روپے دیئے گئے ہیں۔ لیکن مجھے اعتراض نہیں، قلعہ عبداللہ بھی بلوچستان ہے۔ مگر بلوچستان کے باقی اضلاع کا بھی حق ہے۔ ژوب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی یونین کونسل میں تین تھانوں کے لئے 30 کروڑ روپے رکھے گئے۔ 300 ملین روپے چھوٹے ڈیم کے لئے، سڑک کی تعمیر کے لئے الگ سے رقم رکھی گئی ہے۔ پچھلے سال میں نے 22 ملین روپے سرینڈر کرائے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مجھے میرے حلقے کے یہ تمام پیسے واپس دے دیئے جاتے۔ مگر صرف 4 ملین دیئے جا رہے ہیں، جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ یہ خان شہید کا وژن نہیں تھا، خان شہید صرف پشتون کی بات نہیں کرتے تھے، وہ مظلوم کی بات کرتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ ان کے صاحبزادے آج مظلوم کی بات نہیں کرتے۔ وہ پشتون کی بھی بات نہیں کرتے، بلکہ صرف قلعہ عبداللہ کی بات کرتے ہیں اور قلعہ عبداللہ میں بھی عنایت اللہ کاریز کی بات کرتے ہیں۔

سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو نے مزید کہا کہ بی آر سی لورالائی کے چھ سو پچاس ملین جبکہ بی آر سی قلات کے لئے صرف 200 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر پی اینڈ ڈی ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ یقین دہانیاں تو کراتے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہیں کرتے۔ میرے حلقے میں اسکولوں کے منصوبوں کے لئے بار بار کٹوتی کے بعد دس کروڑ روپے رکھے گئے۔ مگر یہ منصوبے بھی پی ایس ڈی پی میں شامل نہیں۔ چار کروڑ روپے کے کولڈ سٹوریج کا منصوبہ اور ایک ڈیم کا منصوبہ بجٹ میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ہم مخلوط صوبائی حکومت کا حصہ اور اتحادی ہیں۔ میں صرف اپنے حلقے کے عوام کا حق مانگ رہا ہوں۔ ہم نے وزیراعلٰی بلوچستان سے بھی کہا تھا کہ بجٹ کی منظوری سے قبل ان تمام مسائل پر توجہ دیں۔ لیکن بجٹ کی منظوری کے بعد بھی ہمارا کوئی کام نہیں ہوا۔ اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی سید لیاقت آغا نے نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن میر خالد لانگو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سخت ریمارکس دیئے۔ جس پر دونوں‌ اراکین اسمبلی میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ دونوں ارکان مسلسل بولتے رہے۔ جس پر سپیکر نے ان کا مائیک بند کرا دیا۔

بعدازاں نیشنل پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ یہ کونسی جمہوری روایت ہے کہ ایک بیوروکریٹ اتنے منصوبے ایک یونین کونسل کے لئے لے جاتا ہے۔ اگر بیورو کریسی میں اتنی طاقت ہے تو پھر ہمیں ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مخلوط حکومت تو ہے، لیکن بیوروکریسی صرف ایک جماعت کی بات مانتی ہے۔ وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ جمہوریت کا حسن اختلاف رائے اور برداشت ہے۔ ہم بہت بڑی قربانیاں دے کر اس ایوان میں آئے ہیں۔ ہمیں انتخابات سے روکنے والی قوتوں نے پورا زور لگایا کہ ہم پارلیمانی سیاست سے دور رہیں۔ مگر ہم قربانیاں دے کر یہاں آئے۔ ہم نے مشکل حالات کا مقابلہ کیا، مگر ہم اقتدار کے بھوکے نہیں۔ اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر یہاں اس ایوان میں بھی بات نہیں کریں گے تو ہم کہاں جائیں۔؟ میر خالد لانگو نے کسی کے خلاف کوئی غلط بات نہیں کی۔ بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا اظہار کیا، وزیراعلٰی کے سامنے اپنے تحفظات پیش کئے۔ مگر لیاقت آغا نے جو الفاظ استعمال کئے، وہ نیشنل پارٹی کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ہم اس وقت تک ایوان میں نہیں بیٹھیں گے، جب تک وہ ان الفاظ کا ازالہ نہیں کرتے۔ ہم اس رویئے کیخلاف احتجاجاً واک آؤٹ کرتے ہیں۔ جس پر نیشنل پارٹی کے اراکین نے ان کے ہمراہ ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

بعدازاں سپیکر کی ہدایت پر وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی، سردار عبدالرحمان کھیتران، میر عاصم کرد گیلو اور منظور کاکڑ نے جاکر انہیں منایا اور ایوان میں واپس لے آئے۔ جس کے بعد پشتونخوا میپ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے فلور پر کھڑے ہوکر کہا کہ دو دن پہلے قائد ایوان کی موجودگی میں تمام معاملات اور فیصلے ہوگئے تھے۔ نیشنل پارٹی کی جانب سے سردار اسلم بزنجو بھی معاملات طے کرنے کے لئے ہمارے ساتھ موجود تھے۔ اسی لئے اجلاس ہوا کہ جن جن کے تحفظات ہیں، ان کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ مگر افسوس کہ بار بار چیزوں کو اچھالا جا رہا ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ سید لیاقت آغا نے جو ریمارکس دیئے میں اس پر معافی مانگتا ہوں، جو بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ان کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ سردار اسلم بزنجو سے سخت شکوہ ہے کہ جو بھی بات ہے وہ ہم سے شئیر نہیں کرتے۔ وزیراعلٰی نواب ثناء اللہ خان زہری نے ایوان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی اپنی روایات ہیں۔ یہاں کی بلوچ پشتون روایات کا تمام اراکین خیال رکھیں۔ ہمیں اس ایوان میں عوام نے منتخب کرکے بھیجا ہے۔ ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے، جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ عوامی نمائندوں کا حق ہے کہ وہ اس ایوان میں بات کریں۔ اپوزیشن لیڈر نے جب تقریر ختم کی تو خود میں نے ڈیسک بجا کر انہیں داد دی، حالانکہ انہوں نے ہم پر تنقید کی۔

انہوں نے اپنی نشست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں 1988ء سے یہاں آرہا ہوں۔ اس وقت یہاں نواب اکبر خان بگٹی بیٹھتے تھے اور ہم اپوزیشن میں تھے۔ مگر اس وقت بھی بلوچستان اسمبلی اور بلوچستان کی روایات کی پاسدار رہی۔ کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی، جس سے روایات کی پامالی ہوتی ہو۔ انہوں نے اراکین پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کی بات صبر و تحمل سے سنیں۔ صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون و بلوچ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن موجودہ حکومت میں چار سال کے دوران پشتون و بلوچ کو اکٹھا کیا۔ امید ہے کہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ بلوچوں کے ساتھ کبھی بھی تلخی نہیں کریں گے۔ بڑے باپ اور بڑے بھائی کا چھوٹا بیٹا اور بھائی ہوں۔ جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تربت کے لئے اپنے دور میں پانچ ہزار ملین لے کر گئے تو ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، بلکہ ہمیں خوشی ہوئی۔ قلعہ عبداللہ کے لئے تین ہزار ملین صرف میرے لئے نہیں، بلکہ ہم چار ایم پی ایز اور ایک رکن قومی اسمبلی کیلئے بھی ہیں، اس لئے سب کو ان کا حق ملنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 647151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش