0
Wednesday 21 Jun 2017 15:45
پاکستان، قطر سعودی تنازع میں غیرجانبدارانہ پالیسی پر کاربند ہے۔

جنرل راحیل شریف کو سرکاری حیثیت میں سعودی عرب نہیں بھجوایا گیا، سرتاج عزیز

یمن پر پارلیمانی قرارداد پاکستان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے
جنرل راحیل شریف کو سرکاری حیثیت میں سعودی عرب نہیں بھجوایا گیا، سرتاج عزیز
اسلام ٹائمز۔ خلیج تنازع کے دوران اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سینیٹ میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف ذاتی حیثیت میں اسلامی اتحاد فورس کی سربراہی میں گئے ہیں اور انہیں سرکاری طور پر نہیں بجھوایا گیا۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نزہت صادق کی زیر صدارت ہوا جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو سعودی عرب اور قطر تنازع پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران کمیٹی نے حکومت سے سعودی عرب اور قطر کشیدگی کے معاملے پر غیر جانبدارانہ مصالحتی کردار ادا کرنے کی سفارش کی۔ کمیٹی کے چیئرمین نزہت صادق نے بتایا کہ تنازع کے حل کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی سعودی فرماں روا شاہ سلمان کے علاوہ امیر قطر سے بھی بات ہوئی ہے۔

مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب قطر تنازع پر بات کرتے ہوئے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان، قطر سعودی تنازع میں غیرجانبدارانہ پالیسی پر کاربند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن سعودی عرب تنازع پر منظور ہونے والی پارلیمانی قرارداد، موجودہ خلیجی بحران میں پاکستان کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ راحیل شریف کو رضاکارانہ طور پر واپس آجانا چاہیے، سعودی عرب اگر اس طرح بھرتیاں کرے گا تو ایران بھی ایسا کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خلیجی بحران میں پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں۔ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ راحیل شریف کو واپس بلانے سے پاک سعودی عرب تعلقات خراب ہوں گے، پاکستان کا 50 فیصد زرمبادلہ خلیجی ممالک سے آتا ہے اور پاکستان اتنے بڑے نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

قانون سازوں کے خدشات پر سرتاج عزیز نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کے پاکستان کسی دوسرے ملک کے مسئلے میں مداخلت نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب، بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سمیت 6 عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے قطر کے ساتھ زمینی اور فضائی رابطے بھی ختم کر دیے تھے۔ ان ممالک کی جانب سے قطر پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سعودی پریس ایجنسی نے قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب اپنی قومی سلامتی کو لاحق دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے کے پیش نظر یہ اقدامات اٹھا رہا ہے۔ تاہم قطر نے جواب میں اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جن عرب ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں ان کے خدشات دور کرنے پر وہ رضامند ہے۔

خلیج ممالک میں پیدا ہونے والا بحران چار دہائیوں سے قائم خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے لیے سنگین ترین بحران ہے۔ دوسری جانب دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے اس معاملے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ناکام ہونے کے باوجود ان سفارتی کوششوں کی سربراہی کرنے والے کویتی امیر شیخ صباح الاحمد الاجابر الصباح نے قطر معاملے کو حل کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا تھا۔ سعودی عرب اور قطر کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف بھی قطر معاملے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قطر کے معاملے کے سفارتی حل کی تلاش کے لیے سعودی عرب کے ثالثی دورے میں فوری پیش رفت حاصل نہیں ہو سکی تھی۔
خبر کا کوڈ : 647822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش